اے ذوقِ نعت آج بھی اشکوں میں ڈھل ذرا- متاع قلم (2001)
اے ذوقِ نعت آج بھی اشکوں میں ڈھل ذرا
قندیل بن کے دل کے جھروکے میں جل ذرا
حرفِ سپاس لکھنے کی رہتی ہے جستجو
اے کلکِ بامراد تو موتی اُگل ذرا
یہ اقتدائے حضرتِ حسّاںؓ کا دور ہے
دم سادھ لے سخن کی گلی میں غزل ذرا
مصروف ہوں ثنائے نبیؐ میں مَیں اِس گھڑی
رنج و الم کی ساعتِ بے کیف ٹل ذرا
گرد و غبارِ وقت میں بھٹکے ہوئے شعور
خاکِ درِ رسولؐ بھی چہرے پہ مَل ذرا
ممکن اگر ہو کاتبِ تقدیر تو ابھی
میلادِ مصطفٰےؐ کے مہینے میں چل ذرا
رکھ رابطہ حضورؐ کی چوکھٹ سے رات دن
میرے ضمیر قیدِ ہوس سے نکل ذرا
یہ اضطراب بھی کہیں سوئِ ادب نہ ہو
شہرِ نبیؐ قریب ہے اے دل سنبھل ذرا
یہ یاد رکھ یہ سارے اُجالے اُنہیؐ کے ہیں
اے ہوشمند! سوچ کا رستہ بدل ذرا
دو چار پھول جاتے ہوئے بھی کروں نثار
محفل سجی ہے نعت کی رکنا اجل ذرا
منسوخ کر کے ساری سزائیں کہیں گے آپؐ
لانا اِدھر ریاضؔ کی فردِ عمل ذرا