آقاؐ حضورؐ! آج ضرورت ہے آپؐ کی- متاع قلم (2001)
پابندِ حکمِ مسندِ شاہی ہے حرف حرف
آشوبِ عہدِ نو میں گرفتار ہے خیال
پھوٹیں کہاں سے فکر و نظر کی دھنک کے رنگ
سر پر جہالتوں کے پلندوں کا بوجھ ہے
آقا حضورؐ ڈھے گئی دیوارِ ارتقاء
صحرائے زندگی میں ہیں پھیلے ہوئے سراب
زر کی تمازتوں سے بدن پر اگیں ببول
رستے تمام وادیٔ عشق و رضا کے بند
تعمیرِ شہرِ خوف میں مصروف آدمی
اِس کربِ ناتمام سے اب تو ملے نجات
آوارگی پہ فکر کی پہرہ کوئی نہیں
مکر و فریب و دجل کا بازار گرم ہے
ہر بوالہوس ہے عدل کی مسند پہ جلوہ گر
کچھ اس قدر ہے بے حسی ماحول پر محیط
حوّا کی بیٹیوں کی ہیں چیخیں بھی بے اثر
کب سے برہنہ رقص سرِ شامِ زندگی
ہر سمت حکمرانی درندوں کی ہے حضورؐ
ہر سمت وحشیوں کی ہوس رقص میں ہے آج
ہر سمت خود ستائی کے جذبوں کی آب و تاب
ہر سمت تشنہ ہونٹ ہیں ہر سمت ہے فرات
ہر سمت ناچ گھر، مرے بچّوں کی قتل گہ
ہر سمت ملک گیری تجارت کے بھیس میں
آنکھوں کو کربِ وقت نے جیسے نگل لیا
انسانیت کے چہرے پہ بجھنے لگے چراغ
بنجر زمین جسمِ بریدہ، قدم قدم
اک سیلِ اضطراب تعاقب میں ہے حضورؐ
آقاؐ غزہ کی پٹی میں اُمت ہے منتشر
چاروں طرف فصیل پہ شب کے گماشتے
بارود پر کھڑی ہیں جوانوں کی ٹولیاں
دامن میں جن کے صرف ہیں کنکر بھرے ہوئے
ان کنکروں کو قوتِ گویائی ہو نصیب
دشمن کے لشکروں میں پھر افتاد و ابتلا
ٹوٹی ہوئی طناب سے وابستہ زندگی
خیموں کی راکھ کب سے کریدے ہے یانبیؐ
آقاؐ حصارِ ضبط و تحمل پہ آج بھی،
ہجرت کی برکتوں کا مسلسل نزول ہو
وجہِ سکونِ دائمی صورت ہے آپؐ کی
آقا حضورؐ! آج ضرورت ہے آپؐ کی