برہنگی- متاع قلم (2001)
فصیلِ زنداں کے آہنی پھاٹکوں سے گزرے ہوا تو سوچیں
مگر ادھر بھی حصارِ ظلمت
اُدھر بھی دیواریں در سے خالی
زمین تانبے کی ہورہی ہے
فلک کے تیور بتارہے ہیں
محیط ارض و سما پہ شب کا علم رہے گا
مجھے گوارا نہیں یہ آقاؐ
میں شب کا بڑھ کر علَم اٹھائوں
میں بادشاہوں کے گیت گائوں
حضورؐ میرے لہو پہ اہلِ ہوس کی نظریں جمی ہوئی ہیں
مَیں اپنا لاشہ اٹھا کے کندھوں پہ پھر رہا ہوں تھلوں میں کب سے
مرے بدن پر کفن نہیں تھا
مرے بد ن پر کفن نہیں ہے