ترے ذکر پر نوازش کے سحاب امڈ کے برسیں- متاع قلم (2001)
ترے ذکر پر نوازش کے سحاب اُمڈ کے برسیں
مری آنکھ کے کٹورے ترا نام لوں تو چھلکیں
مَیں فقیر بن کے گلیوں میں تریؐ صدا لگاؤں
مری زندگی کے یہ دن ترے آستاں پہ گزریں
مری بے قرار آنکھیں کبھی لیں بلائیں اُنؐ کی
کبھی بام و در سے لپٹیں کبھی جالیوں کو چومیں
نہ بدن ہے خوشبوؤں کا نہ دھنک کا پیرہن ہے
مَیں غریبِ گلستاں ہوں مرے روز و شب بھی مہکیں
یہ غلام یہ کنیزیں جو کھڑے ہیں کب سے آقا
ترے آستانِ عالی کے سوا کدھر کو دیکھیں
کرمِ عظیم دیکھو یہ ریاضِؔ بے نوا پر
کہ ہیں دست بستہ رہتی ہمہ وقت اس کی سوچیں