صورتِ حرفِ غم ہے نوائے قلم المدد یا رسولِ خدا المدد- متاع قلم (2001)
صورتِ حرفِ غم ہے نوائے قلم، المدد یارسولِ خدا المدد
کب سے اوراقِ جاں پر ہیں آنسو رقم المدد یارسولِ خدا المدد
کچھ تو آسودہ لمحوں کی خیرات دیں اپنے نقشِ کفِ پا کی سوغات
دیں
ظلمتِ شامِ کرب و بلا میں ہیں ہم المدد یارسولِ خدا المدد
ہاتھ باندھے ہوئے سرجھکائے ہوئے مجرموں کی طرح منہ چھپائے
ہوئے
امتِ خستہ جاں ہے رسولِ اممؐ المدد یارسولِ خدا المدد
جلتے بجھتے ہوئے ان شراروں میں ہے کتنے واہام کی رہگذاروں
میں ہے
کاروانِ شمیمِ سحر دم بہ دم، المدد یارسولِ خدا المدد
زیرِ تیغِ عدو ارضَ کشمیر ہے، خاکِ بوسینیا پا بہ زنجیر
ہے
کب کھلے گا غلاموں پہ بابِ کرم المدد یارسولِ خدا المدد
اذن رحمت کی کالی گھٹا کو ملے، شاخِ دل پر کلی آرزو کی کھِلے
شدتِ ضربِ دستِ تظلم ہو کم المدد یارسولِ خدا المدد
اک حصارِ انا کھینچنے کے لئے شہرِ دل کے بجھانے پڑے ہیں
دیے
مبتلائے ہوس کیا عرب کیا عجم المدد یارسولِ خدا المدد
بے بسی آج چہروں پہ تحریر ہے بے حسی اپنے پاؤں کی زنجیر
ہے
ایک سا ہے ہمارا وجود و عدم، المدد یارسولِ خدا المدد
اپنے بچوں کا کل ہم نے گروی رکھا، اپنی آزاد سوچوں کا سودا
کیا
رک گیا ہے تحیر سے آنکھوں میں دم، المدد یارسولِ خدا المدد
عمرِ رفتہ کو بھی لاکھ آواز دی، زندگی کس خرابے میں ہے کھو
گئی
منجمد ہو گئی ہر دعائے حرم، المدد یارسولِ خدا المدد
کوئی دشتِ تمنّا میں کھویا رہا، اپنے اشکوں کی چوکھٹ پہ
سویا رہا
ڈھونڈتا ہی رہا کوئی نقشِ قدم، المدد یارسولِ خدا المدد
شامِ غم اب منڈیروں سے ڈھلتی نہیں، کوئی قندیل چلمن میں
جلتی نہیں
آفتابِ محبت، نگاہِ کرم، المدد یارسولِ خدا المدد
یانبیؐ آپؐ کے آپؐ کے ہاں سوا، کون پوچھے ریاضِ حزیں کو
بھلا
رکھ لیں پھر آپؐ ہی بے نوا کا بھرم، المدد یارسولِ خدا المدد