کلکِ مدحت دے کے اپنا ہمزباں کس نے کیا- کشکول آرزو (2002)

کلکِ مدحت دے کے اپنا ہمزباں کس نے کیا
مجھ سی ناکارہ زمیں کو آسماں کس نے کیا

سوچتا رہتا ہوں سورج ہاتھ میں لینے کے بعد
تیرگی کو روشنی کی داستاں کس نے کیا

میں سرِ مقتل برہنہ سر کئی صدیوں سے تھا
میرے سر پر رحمتوں کا سائباں کس نے کیا

کس نے توفیقِ ثنا بخشی سرِ بزمِ سُخن
معتبر میرا ہر اک حرفِ بیاں کس نے کیا

تاجدارِ ارضِ جاںؐ کی نعت کا دے کر ہنر
منکشف خود کو پسِ وہم و گماں کس نے کیا

وادیٔ طائف میں اُنؐ کے زخم ہائے عشق سے
میرے لفظوں کو صداقت کی اذاں کس نے کیا

وہ محمدؐ کا خُدا، میرا خُدا، اُس کے سوا
نقشِ باطل کو ازل سے بے نشاں کس نے کیا

چند تنکے جمع میں نے شاخِ نازک پر کئے
حرفِ نسبت کو حصارِ گلستان کس نے کیا

گنبدِ خضرا کے عکسِ دل رُبا کے سامنے
شب کی بنجر ساعتوں کو گلفشاں کس نے کیا

سوز و سازِ عشق کی دولت عطا کرتے ہوئے
میرے ہر نغمے کو پابندِ فغاں کس نے کیا

منصبِ نعت پیمبرؐ کس نے بخشا ہے مجھے
ایک ذرّے کو حریفِ کہکشاں کس نے کیا

کشتیاں کاغذ کی بھی ساحل پہ آپہنچیں ریاضؔ
پھر ہوائے تند خو کو مہرباں کس نے کیا