اے ربِ ارتقائے شب و روز و ماہ و سال- کشکول آرزو (2002)
اے ربِّ ارتقائے شب و روز و ماہ و سال
محرومیوں کے عہدِ پریشاں کو دے زوال
کیونکر کوئی ورق پہ سجائے دھنک کے رنگ
زخموں سے چُور چُور ہے رعنائی خیال
فریاد سن کہ پنجۂ آفات میں ہوں مَیں
شہ رگ سے بھی قریب ہے توُ ربِّ ذوالجلال
جیسے زمین پاؤں کے نیچے نہیں رہی
مَیں گر رہا ہوں اے مرے مولا! مجھے سنبھال
بنجر زمین جسم کی مانگے گھٹا کا لمس
شاداب ساعتوں سے بھرے آرزو کا تھال
آسودگی اُگا مری آنکھوں میں بھی کبھی
آلام و رنج و درد کے طوفان سے نکال
خیمہ تنا ہوا ہے ہواؤں کا شہر میں
کیسے کوئی چراغ جلائے شبِ وصال
شر کے علَم کھلے ہیں فصیلِ شعور پر
ملتی نہیں جہاں میں کہیں خیر کی مثال
روئیدگی کا حدِ نظر تک نہیں نشاں
اترے مری زمین پہ بھی شبنمیں سی شال
حرفِ دعا لبوں سے ہوا نے چرا لیا
اس جبرِ ناروا سے ہوا ہے کوئی نڈھال
ہر اک قدم پہ بنتی ہے زنجیر تیرگی
اس دورِ ناسپاس کی تاریکیاں اجال
انسانیت تو اہلِ ہوس کی ہے داشتہ
توقیرِ نسلِ آدمِ خاکی کو کر بحال
مدقوق چاندنی بھی ہے جن کے شباب کی
زرتاب موسموں میں کبھی وہ بھی ہوں نہال
کوئی کرن حضورؐ کے نعلین کے طفیل
خورشیدِ صبح تیرہ شبی میں کبھی اچھال
اے لا شریک و قادر و رحمان و بے نیاز
کیوں تیری ذات ہی سے نہ کرتا رہوں سوال
حیراں کھڑا ہے آئنوں کے سامنے ریاضؔ
عکسِ دوام اس کو بھی اے پیکرِ جمال