93ء کی آخری ساعتوں میں ایک دعائیہ نظم- کشکول آرزو (2002)
خالقِ روز و شب
مالکِ انس و جاں
میرے مشکل کشا
رزق کیڑے کو پتھر میں بھی دینے والے خدا
میری آواز سن!
اس گزرتے ہوئے سال کی آخری ساعتوں میں
تیرے محبوب کا ایک ادنیٰ سا شاعر
اپنی ناکامیوں کے کفن میں بدن کو سجائے ہوئے
اپنے اندر کے انساں سے نظریں چرائے ہوئے
اپنے بچوں سے آنسو چھپائے ہوئے
ڈوبتی ساعتوں کو گلے سے لگائے ہوئے
اپنے بچوں کی محرومیاں گن رہا ہے
اپنے خوابوں کے ریزے سرِ رہگزر چن رہا ہے
اس گزرتے ہوئے سال کی آخری ساعتوں میں
تیرے محبوب ؐ کا ایک ادنیٰ سا شاعر
اس اداسی کے جنگل میں تنہا کھڑا ہے
جیسے امید ٹوٹے ستاروں کے ملبے کے نیچے ابھی سو رہی ہے
مگر اس گزرتے ہوئے سال میں بھی
فصیل شعور و قلم پر ثنائے نبی ؐ کے علَم کھل رہے ہیں
فصیلِ شعور و قلم اُن کی دہلیز پر جھک رہی ہے
مجھے اپنی ناکامیوں کا کوئی دکھ نہیں
خالقِ روز و شب
مالکِ انس و جاں
میرے مشکل کشا
ہے یہی التجا
پھول ہونٹوں پہ اگلے برس بھی ثنا کے مہکتے رہیں
میری سانسوں میں اسمِ نبی ؐ سے چراغاں رہے
گنبدِ سبز دن رات اشکوں میں یوں ہی چھلکتا رہے
خالقِ روز و شب
مالکِ انس و جاں
میرے مشکل کشا
یا خدا، یا خدا