یہ کون آیا کہ تاریخِ بشر پھولوں سے مہکی ہے- کشکول آرزو (2002)
یہ کون آیا کہ ہر شاخِ برہنہ مسکرا اٹھی
یہ کون آیا کہ کشتِ دیدہ و دل لہلہا اٹھی
یہ کون آیا کہ تشنہ آرزووں پر بہار آئی
یہ کون آیا کہ گلشن میں ہوائے مشکبار آئی
یہ کون آیا کہ انساں کا مقدر جاگ اٹھا ہے
یہ کون آیا کہ عرش و فرش تک اک نور پھیلا ہے
یہ کون آیا کہ سجدے سے مچلتے ہیں جبینوں میں
یہ کون آیا کہ ٹھنڈک پڑگئی پیاسی زمینوں میں
یہ کون آیا کہ پرچم کھل گئے توحیدِ باری کے
حضورِ خالقِ یکتا ہماری آہ و زاری کے
یہ کون آیا کہ دیوارِ حرم سروِ چراغاں ہے
یہ کون آیا کہ شاخِ آرزو خوشبو بداماں ہے
یہ کون آیا کہ تاریخِ بشر پھولوں سے مہکی ہے
تمدن کی جبیں پر چاندنی چپکے سے اُتری ہے
یہ کون آیا کہ آدم کا شرف ہی معتبر ٹھہرا
یہ کون آیا کہ ہر اک لفظ ہے حکمِ خدا جس کا
یہ کون آیا کہ ظلماتِ شبِ ماتم مٹی یکسر
یہ کون آیا کہ تاحدِ نظر پھیلے خنک منظر
یہ کون آیا کہ تپتے ریگ زاروں پر گری شبنم
یہ کون آیا کہ نطمِ جبر و باطل بھی ہوا برہم
یہ کون آیا کہ محرابِ یقیں میں جشن برپاہے
یہ کون آیا کہ ابرِ نور و نکہت کھل کے برسا ہے
یہ کون آیا کہ حرفِ آگہی کو مل گئے معنی
یہ کون آیا کہ جس کی منتظر ساری خدائی تھی
یہ کون آیا کہ چھائی ہے فضا میں سرمدی راحت
یہ کون آیا کہ حوا کو ملی ہے چادرِ رحمت
یہ کون آیا کہ اتری ہے دھنک کالی زمینوں پر
یہ کون آیا کہ محراب یقیں چمکی جبینوں پر
یہ کون آیا کہ جو توقیرِ انساں کی ضمانت ہے
یہ کون آیا کہ اب تک ہمسفر ابرِ شفاعت ہے
یہ کون آیا کہ ہر تارِ نفس بھی گنگناتا ہے
یہ کون آیا کہ پلکوں پر چراغاں ہوتا جاتا ہے
یہ کون آیا کہ ہے ارض و سما پر وجد ساری طاری
یہ کون آیا کہ چشمہ فیض کا ہے آج بھی جاری
یہ کون آیا کہ جو شاداب لمحوں کا امیں ٹھہرا
یہ کون آیا ہے خورشیدِ محبت نقشِ پا جس کا
یہ کون آیا کہ جو سردار ہے بزم رسالت کا
جو مرکز ہے محبت کا جو پیکر ہے سخاوت کا
یہ کون آیا کہ بعدِ حشر بھی جس کی حکومت ہے
ازل سے تا ابد جس کی امامت ہے عدالت ہے
یہ کون آیا کہ رحمت کی گھٹائیں جھوم کر آئیں
یہ کون آیا کہ اُمیدیں بھی انسانوں کی برآئیں
یہ کون آیا کہ قندیلوں میں کرنیں جھلملاتی ہیں
یہ کون آیا کہ گلشن میں فضائیں گنگناتی ہیں
یہ کون آیا کہ نخلستاں سجے ہیں ریگ رازوں میں
یہ کون آیا کہ کرنیں بٹ رہی ہیں ماہ پاروں میں
یہ کون آیا کہ جو مقصودِ تخلیقِ دو عالم ہے
یہ کون آیا کہ جو انسان کے زخموں کا مرہم ہے
یہ کون آیا کہ سبزہ بچھ گیا ہے ریگ زاروں میں
اتر آئے ہیں اب شاداب لمحے مرغزاروں میں
یہ کون آیا کہ جو ننگے سروں پر ایک سایا ہے
یہ کون آیا کہ کون و مکاں کے سر کی چھایا ہے
یہ کون آیا کہ ہر سو رنگ بکھرے ہیں فضاؤں میں
یہ کون آیا کہ خوشبو ناچ اٹھی ہے ہواؤں میں
یہ کون آیا کہ ارضِ جاں پر رحمت کے سحاب آئے
یہ کون آیا کہ دامانِ سحر میں آفتاب آئے
یہ کون آیا کہ ہونٹوں پر درودوں کی سحر جاگی
جوارِ دیدہ و دل میں انہیؐ جت ریگذر جاگی
یہ کون آیا کہ فصلِ لالہ و گل لہلہا اٹھی
یہ کون آیا کہ میری شامِ غم بھی گنگنا اٹھی
یہ کون آیا کہ جس کے نور سے ہے ارضِ جاں روشن
یہ کون آیا کہ ہے جن و بشر کی داستاں روشن
یہ کون آیا کہ کنگرے گر گئے ایوانِ باطل کے
ملے آثار و شتِ بے اماں میں ہم کو منزل کے
یہ کون آیا کہ ہے فقر و غنا زادِ سفر جس کا
رہے گا ہر افق پر تا ابد رنگِ سحر جس کا
یہ کون آیا کہ دستارِ سخن میں چاندنی اتری
یہ کون آیا کہ غارِ روز و شب میں روشنی اتری
یہ کون آیا کہ پھرتی ہے دھنک مکّے کی گلیوں میں
یہ کون آیا کہ خوشبو جھومتی ہے بند کلیوں میں
یہ کون آیا قلم کی خستہ حالی پر کرم ہوگا
کتابِ زندگی کا بابِ روشن اب رقم ہوگا
یہ کون آیا کہ جس کو حاصلِ کون و مکاں کہیے
یہ کون آیا کہ جس کو ہر صدی کا حکمران کہیے
ریاضؔ اس پیکرِ انوار و رحمت کی ثنا لکھیے
اُسی کی ذاتِ اقدس کو محمد مصطفیؐ لکھیے