پڑاؤ جاں کے قریں ہے شبوں کے لشکر کا- کشکول آرزو (2002)
پڑاؤ جاں کے قریں ہے شبوں کے لشکر کا
بیان وصف کرو روشنی کے پیکر کا
خدا بھی اس کا، خدائی پہ دسترس اس کو
نگار خانۂ قدرت ہے اس پیمبرؐ کا
خیالِ خلدِ مدینہ پہ کھلنے لگتا ہے
صبیح موسمِ مدحت ہے میرے اندر کا
کرم محیط ہے اس کا ہر ایک لمحے پر
دیا ہے ظرف خدا نے اسے سمندر کا
یہ سیلِ حُسنِ بلاغت ہے معجزہ اس کا
کمال خاک ہے اس میں کسی سخنور کا
حضورٔ آپ کے ادنیٰ سے ایک شاعر کو
سفر نصیب ہو پھر قریۂ منور کا
ردائے سِلکِ شفاعت مجھے ملے گی ضرور
کہ منتظر ہوں ازل سے مَیں روزِ محشر کا
کسی کے گھر میں اندھیرا ہے سیم و زر کا بہت
کسی کے گھر میں اجالا ہے ذکرِ اطہر کا
مرے حضورؐ مری نعت سن رہے ہیں ریاضؔ
چمک رہا ہے ستارا مرے مقدر کا