ضمیرِ لالہ و گل سے عقیدت کی مہک اٹھے- کشکول آرزو (2002)
ضمیر لالہ و گل سے عقیدت کی مہک اٹھے
پئے تعظیم ہر جن و بشر، حور و ملک اٹھے
بیاضِ ہجر کے اوراق الٹے ہیں ہواؤں نے
حروفِ نارسائی کا ستارا بھی چمک اٹھے
اُدھر کالی گھٹا میں برق لہرائی شفاعت کی
اِدھر دشتِ بدن کے خشک ذرے بھی دمک اٹھے
تعارف کی ضرورت ہی نہیں رہتی سرِ محفل
اگر کردار میں نقشِ قدم اُنؐ کا جھلک اٹھے
ہوائے عجز میں بھی سانس لینے کا ہنر سیکھو
کہ اب شاخِ انا بارِ ندامت سے لہک اٹھے
حریمِ خلدِ دانش میں مرے مسند نشیں آقاؐ
مرے سر سے جہالت کا کفن لے کر فلک اٹھے
لگا ہے مصر کا بازار ناداروں کی بستی میں
کرم کے اَن گنت سکّوں سے پھر کاسہ چھنک اٹھے
سماعت کے مقآفل در سرِ شب جس نے کھولے ہیں
غبارِ جاں کے سنّاٹوں میں وہ پیکر سنک اٹھے
مسلمانوں پہ طائف کا بہت سا قرض باقی ہے
کبھی سچ مچ بھی اُن سفّاک لمحوں کی کسک اٹھے
بجھے دن کی جبیں پر جس نے بنیادِ سحر رکھی
لہو کے برف زاروں میں وہ سورج پھر دمک اٹھے
حضورِ حُسن چپ رہتا تھا لیکن پھر دمِ رخصت
کسی کے دیدۂ تر میں چھپے آنسو چھلک اٹھے
ریاضؔ اُن کی مسیحائی کا یہ اعجاز کیا کم ہے
مرے رستے کا پتھر میرے سینے میں دھڑک اٹھے