کلکِ ثنا کو نور کی موجوں میں رکھ دیا- کشکول آرزو (2002)

کلکِ ثنا کو نور کی موجوں میں رکھ دیا
یعنی گدازِ عشق کو ھونٹوں میں رکھ دیا

دے کر غبارِ شہر تمنا کی آرزو
کس نے چراغ ہجر کا آنکھوں میں رکھ دیا

میرے خدا نے نصبِ نعتِ نبی کے ساتھ
صلِّ علیٰ کا نور نگاہوں میں رکھ دیا

بادِ صبا نے وردِ درود و ثنا کے بعد
اسمِ رسولؐ ادھ کھِلی کلیوں میں رکھ دیا

آقا حضورؐ! اہلِ ہوس نے قدم قدم
میرا ہر ایک خواب خیالوں میں رکھ دیا

میں عکسِ ناروا تو نہیں تھا زمین پر
دنیا نے مجھ کو بانٹ کے ٹکڑوں میں رکھ دیا

کوتاہ قامتوں سے گلہ کیا کرے کوئی
سورج مرے وجود کا سایوں میں رکھ دیا

سالارِ کارواں نے سرِ ساحلِ مراد
کاغذ کی کشتیوں کو بھی شعلوں میں رکھ دیا

سرکارؐ ناصحانِ قدامت پسند نے
حرفِ وفا پرانی کتابوں میں رکھ دیا

آقاؐ فقیہہِ شہر نے آئینہ حیات
اڑتی ہے جن کی دھول انھی رستوں میں رکھ دیا

عشّاقِ مصطفیٰؐ نے بڑے ذوق و شوق سے
ذکرِ حضورؐ جھومتے لمحوں میں رکھ دیا

کتنا کرم کیا ہے خدائے رحیم نے
اُنؐ کی ثنا کو ڈوبتی سانسوں میں رکھ دیا

کتنے عجیب لوگ ہیں ہم، رہبرِ عظیمؐ!
منزل کا ہر نشان سرابوں میں رکھ دیا

روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دیا
(ق)
میں نے بڑے خلوص سے چوما اسے ریاضؔ
اور پھر قلم حضورؐ کے قدموں میں رکھ دیا