ہوا ہے مخالف مگر طاقِ جاں میں چراغِ عقیدت جلائے ہوئے ہے- کشکول آرزو (2002)
ہوا ہے مخالف مگر طاقِ جاں میں چراغِ عقیدت جلائے ہوئے ہے
ریاضؔ ایک دیوانہ، سرکارؐ، گھر میں مدینے کی بستی بسائے ہوئے ہے
کبھی اوج پر چمکے قسمت کا تارا، کبھی روئے تاباں کا بھی
ہو نظارا
کوئی اپنی آنکھیں، حضورؐ، آپؐ کی رہگذر میں ازل سے بچھائے ہوئے ہے
حضورؐ، آپ کا ایک ادنیٰ سا شاعر جو کیفِ حضوری میں رہتا
ہے اکثر
ہوائے مدینہ بڑی چاہتوں سے وہ سینے سے اپنے لگائے ہوئے ہے
کنیزیں کھڑی ہیں درودوں کے گجرے لئے یارسولِؐ خدا آ بھی
جائیں
کہ میرے گھرانے کا ہر ایک بچہ بھی پلکوں پہ آنسو سجائے ہوئے ہے
کرم کی، عطا کی، نوازش کی بارش مسلسل غلاموں پہ ہوتی رہی
ہے
مگر دید کی آرزو آج بھی قفل ہونٹوں پہ آقاؐ لگائے ہوئے ہے
طنابیں جلی خیمہ گاہوں کی ریگِ رواں کے سمندر میں بھی بہہ
چکیں، پر
کوئی تیرہ و تار شب کے بھنور میں عَلَم روشنی کے اٹھائے ہوئے ہے
کسی دن تو آنگن میں شاداب رت سے عبارت نئے دن کی تحریر ہو
گی
گنہ گار مجھ سا بھی دامانِ تر میں تمنا کے گلشن کھلائے ہوئے ہے
ذرا ابرِ رحمت کے چھینٹوں سے بھر دیں مرے تشنہ ہونٹوں کے
کشکول آقاؐ
ہوا خود بھی اوراقِ حرفِ دُعا پر یہ مقتل کے منظر بنائے ہوئے ہے
حضورؐ آج بھی اُمتِ بے نوا پر مصائب کے کوہِ گراں آپڑے ہیں
حضورؐ آج بھی شہرِ طائف میں ہر شخص ہاتھوں میں پتھر اٹھائے ہوئے ہے
حضورؐ ایک نوکر کہ جس کو گلے میں غلامی کے پٹکے کی حسرت
ہے اب تک
مگر سامنا تو بڑی چیز ہے وہ تو خود سے بھی نظریں چرائے ہوئے ہے
مرے ہم سفر، میرے ہمراز ساتھی! ذرا میرا رختِ سفر کھول دینا
بھلا اٹھ کے جائے کہاں وہ مسافر جو قدموں میں جاں بھی لٹائے ہوئے ہے
ریاضؔ آپؐ کے در کا منگتا ہے لیکن یہ شاہوں کو خاطرمیںلاتا
نہیں ہے
بڑے عجز سے سر جھکائے ہوئے آپؐ کے در پہ پلکیں بچھائے ہوئے ہے