88ء کی پہلی نعتیہ نظم- کشکول آرزو (2002)
پہلے خدا کی حمد لکھے کلکِ بامراد
سجدہ کرے ورق پہ خبیر و علیم کو
پھر اس کے بعد اُس کی ثنا کو جھکے قلم
محبوب ہے جو ذات خدائے رحیم کو
ہونٹوں پہ پھول۔ چشمِ تمنّا میں نم رہے
اب کے برس بھی پہلے سا وہ کیف و کم رہے
اب کے برس بھی نعت نگاری کا اذن ہو
اب کے برس بھی اُنؐ کی نگاہِِ کرم رہے
آقاؐ ہجومِ یاس میں اُمّید کی کرن
ظلماتِ شامِ غم کو سحر آشنا کریں
مَیں بھی ہتھیلیوں پہ جلاؤں نئے چراغ
میرے بھی گھر میں چاند ستارے اُگا کریں
اب کے برس بھی آپ کے نعلین کے طفیل
بزمِ جہاں میں آپ کے شاعر کا نام ہو
اتنی سی التماس ہے اے رحمتِ دوام
میری بیاضِ نعت کی خوشبو بھی عام ہو
دن بھر اداس رہنے کی عادت سی پڑ گئی
اب کے برس حضورؐ مجھے بھی خوشی ملے
محرومیوں نے گھیر رکھا ہے مرا بدن
اس کربِ ناتمام میں آسودگی ملے
ہر شب مَیں اپنی جھولتی پلکوں کے آس پاس
میلہ سا ایک اشکِ رواں کا لگاوؐں گا
گجرے بنا بنا کے درود و سلام کے
قلب و نظر میں نعت کی محفل سجاؤں گا