چھپا کر آپؐ کا اسمِ گرامی اپنے سینے میں- خلد سخن (2009)

چھپا کر آپؐ کا اسمِ گرامی اپنے سینے میں
میں شہرِ ہجر میں ہوں اور رہتا ہوں مدینے میں

مرا دل جھومتا رہتا ہے صبح و شام ہر ساعت
عجب سا کیف ہے میلاد کے نوری مہینے میں

جنہیں مطلوب ہو سنگت گدایانِ مدینہ کی
انا وہ رکھ کے آئیں مسندِ شاہی کے زینے میں

گناہوں کی دھری ہیں گٹھریاں کتنی مرے سر پر
ندامت ہی ندامت ہے ندامت کے پسینے میں

کسی دن تو ستارے بخت کے گردش سے نکلیں گے
صبا اُنگلی پکڑ کر لے ہی جائے گی مدینے میں

کہاں سے لفظ لاؤں نعت کے قابل مرے آقاؐ
کوئی آنسو نہیں ہے کاسۂ فن کے دفینے میں

چلو ہم بھی کرم کے پھول بھر لیں اپنے دامن میں
کمی کیا ہے مرے آقاؐ کی رحمت کے خزینے میں

ثنا کی چاندنی ہے، رتجگا ہے، شامِ مدحت ہے
یہ کیسی کہکشاں اُتری ہوئی ہے ہر نگینے میں

کتابِ زندگی کے ہر ورق پر ہیں دیے روشن
اُنہیؐ کا نور ہے لوح و قلم کے آبگینے میں

جمالِ گنبدِ خضرا مَیں کن آنکھوں سے دیکھوں گا
ریاضِؔ بے نوا گم صم ابھی تک ہے سفینے میں