کون کہتا ہے حصارِ عشق سے نکلوں گا میں- کشکول آرزو (2002)

کون کہتا ہے حصارِ عشق سے نکلوں گا مَیں
عمر بھر قدموں کی اجلی کہکشاں ڈھونڈوں گا مَیں

آج بھی کاغذ پہ اپنی چشمِ تر رکھنے کے بعد
حرفِ گل بن کر سرِ لوح و قلم مہکوں گا مَیں

وہ گھڑی پھر آئے گی پھر اوج پر ہو گا نصیب
سبز گنبد کی سنہری جالیاں چوموں گا مَیں

شہرِ پیغمبرؐ میں دل کی دھڑکنوں کے رقص سے
اک نئے عہدِ محبت کی بنا رکھوں گا مَیں

دامنِ رحمت میں لے لے گا مجھے ابرِ کرم
اک نوائے بے نوائے بن کر اگر گونجوں گا مَیں

گنبدِ خضرا کے دامانِ کرم میں بیٹھ کر
سوچتا ہوں، بعد اس کے اور کیا چاہوں گا مَیں

چوم کر سرکار کی چوکھٹ کو لوٹ آنا صبا
عمر بھر شام و سحر رستہ ترا دیکھوں گا مَیں

پیش ہو گے جب مرے اعمال محشر میں تو سن!
یا محمد مصطفیٰؐ صلِّ علیٰ کہہ دوں گا مَیں

ہاں اگر ممکن ہے تو حُبِّ نبیؐ کا دے گداز
کھردرے لفظوں کی حامل کب زباں سمجھوں گا مَیں

آج کی شب بھی مرے آنگن میں مہکیں گے گلاب
کشتِ جان و دل میں فصلِ آرزو کاٹوں گا مَیں

مَیں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاضؔ
جب بھی سوچوں گا نبیؐ کی نعت ہی سوچوں گا مَیں