شجر اِک بے ثمر ہے اور میں ہوں یا رسول اللہ ﷺ- خلد سخن (2009)
شجر اک بے ثمر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
لہو میں تر سحر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
سرِ مقتل ہوئی ہے قتل انسانوں کی بینائی
نوائے نوحہ گر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
بیاں کیسے کروں جو حشر برپا ہے مرے اندر
بدن کا بس کھنڈر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
کھڑا ہوں عشق کے بازار میں اور میرے کاسے میں
زرِ نامعتبر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
سجھائی کچھ نہیں دیتا کہ تاریکی قیامت کی
در و دیوار پر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
کبھی اذنِ سفر پھر وادیٔ بطحا کی جنت کا
غبارِ رہگزر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
مصائب میں سُلگتی شام تنہائی کے جنگل میں
مری یہ چشمِ تر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
سماعت پر گری ہیں بجلیاں، شہرِ حوادث میں
ہوائے شور و شر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
ہوس کاروں کی بستی میں ہوس مردہ نہیں ہوتی
عذابِ مال و زر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
تعین سَمْت کا ممکن نہیں ان گھپ اندھیروں میں
مسلسل اِک سفر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ
مقفّل سارے در ہیں راستہ کوئی نہیں ملتا
ریاضِؔ بے ہنر ہے اور مَیں ہوں یارسول اﷲ