چراغِ آرزو کب تک جلائیں یا رسول اللہ ﷺ- کشکول آرزو (2002)

چراغِ آرزو کب تک جلائیں یارسول اﷲ
مدینے میں غلاموں کو بلائیں یارسول اﷲ

مری آنکھیں لپٹ جاتی ہیں ہر زائر کے قدموں سے
مری سوچیں ورق پر سر جھکائیں یارسول اﷲ

بجا آداب لاتی ہے مرے کھیتوں کی ہریالی
سلامِ شوق کہتی ہیں ہوائیں یارسول اﷲ

میں جب بھی قصد کرتا ہوں ثنا کے پھول چننے کا
لپٹتی ہیں قلم سے کہکشائیں یارسول اﷲ

زمیں پیاسی ہے مدت سے حریمِ دیدہ و دل کی
اٹھیں طیبہ سے رحمت کی گھٹائیں یارسول اﷲ

صبا کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا ہے غلاموں نے
ہمارے گھر میں بھی تشریف لائیں یارسول اﷲ

قدم بوسی کی حسرت ہے مرے سارے قبیلے کو
مقدر ہم غریبوں کا جگائیں یارسول اﷲ

گدائی مل گئی ہے آپؐ کے در کی فقیروں کو
شہنشاہوں کا کیوں احساس اٹھائیں یارسول اﷲ

میں خالی ہاتھ آیا تھا نہ خالی ہاتھ جاؤں گا
مری مقبول ہوں سب التجائیں یارسول اﷲ

جواں بیٹوں کے سر پر عافیت کا سائباں مانگیں
مرے اس عہد کی بے چین مائیں یارسول اﷲ

ہیولے خوف کے ہر اک دریچے سے لپٹتے ہیں
مرے گھر سے پلٹ جائیں بلائیں، یارسول اﷲ

مجھے افلاس کی مجبوریاں منظور ہیں لیکن
مرے گھر سے یہ ٹل جائیں وبائیں یارسول اﷲ

مقفّل جن پہ ہیں سارے شبستانوں کے دروازے
درِ اقدس کو چومیں وہ صدائیں یارسول اﷲ

بڑی مدت سے کشتی آپؐ کی نادان امت کی
بھنور میں ہے کنارے سے لگائیں یارسول اﷲ

مسلسل سر کشی پر کون اکساتا ہے مجرم کو
پریشاں اس کو رکھتی ہیں انائیں یارسول اﷲ

بھرم رکھتا نہیں کوئی کسی کی نارسائی کا
کہاں دامن کی ویرانی چھپائیں یارسول اﷲ

نمو کی قوتوں کا خوں پیا ہے باغبانوں نے
کہاں سورج نئے دن کا اگائیں یارسول اﷲ

شفق کی سرخیوں میں خونِ مظلوماں جھلکتا ہے
کٹا بیٹھی ہیں پر سب فاختائیں یارسول اﷲ

زمین پر حق و باطل کی ابھی تک جنگ جاری ہے
لہو برسا رہی ہے کربلائیں یارسول اﷲ

خزاں کے زرد قدموں کی سنائی چاپ دیتی ہے
شگوفے کیا چمن میں مسکرائیں یارسول اﷲ

درِ اقدس پہ کب سے منتظر ہیں باریابی کی
ریاضِؔ بے نوا کی یہ نوائیں یارسول اﷲ