وہ اک کھلی کتاب کے مانند ہیں ریاضؔ- کشکول آرزو (2002)
آقا حضورؐ! عصرِ غم و ابتلا میں ہوں
نیزے پہ سر ہے اور شبِ کربلا میں ہوں
لے چل مجھے بھی شہرِ پیمبر کے آس پاس
بادِ صبا! مَیں مشتِ غبارِ قضا میں ہوں
طوفاں امڈ رہے ہیں افق سے مگر حضورؐ
کاغذ کی کشتیوں کے ہجومِ بلا میں ہوں
تشنہ لبی نے کتنے اگائے ہیں ذائقے
لیکن بفیضِ نعت برستی گھٹا میں ہوں
وردِ زباں ہے اسمِ گرامی نفس نفس
روزِ ازل سے نکہتِ غارِ حرا میں ہوں
مطلق مجھے بھی خوف نہیں روزِ حشر کا
مَیں بھی حصارِ مدحتِ خیر الوریٰ میں ہوں
تقسیم ہو رہی ہے اکائی مری حضورؐ
کب سے نصابِ گردشِ صبح و مسا میں ہوں
مَیں مطمئن حضورؐ کروں خود کو کس طرح
یوں منتشر ہوں جیسے کسی کی صدا میں ہوں
میزانِ عدل غیر کے ہاتھوں میں ہے حضورؐ
ہر لحظہ، ہر گھڑی، کسی روزِ جزا میں ہوں
میرے بھی گھر میں پرچمِ نعتِ نبیؐ کھلا
مَیں بھی ریاضؔ حلقۂ احمد رضاؒ میں ہوں
مَیں بھی تلاشِ نقشِ کفِ پا میں ہوں ریاضؔ
مَیں بھی ازل سے سطوتِ ارض و سما میں ہوں