لمحات حاضری کی تمنا لئے ہوئے- تمنائے حضوری (2000)
ممدوحِ ربِ ارض و سماوات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضری کی تڑپ اور حضور کی متاعِ آرزو غلامانِ رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلوں کی ہر دھڑکن کا منتہائے عزیز ہے، گنبدِ خضرا کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میں جبینِ شوق کے سجدوں کی بیتابی گدازِ جاں کے لمسِ لطیف سے ہمکناری ہو رہی ہے، طائرانِ تخیل کی پرواز کی ابتدا ابھی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چوکھٹ کی خاکِ انور ہے اور ان کی انتہا بھی غبارِ درِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجلیات سے مستنیر ہے، کائناتِ رنگ و بو کے ذرے ذرے میں خالقِ کائنات کے اس شاہکارِ عظیم کی محبت کے چراغ روشن ہیں کہ سرابِ نظر کی ہلکی سی دھند کا پر تو بھی اقلیمِ خیالِ پیغمبر آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فصیلوں پر نہیں پڑا۔
یہی محبت، عقیدت کے پیرہن میں سجتی ہے تو کارکنانِ قضا و قدر اسے محبویبت کی خلعتِ فاخرہ سے بھی نوازتے ہیں اور اس کے دامنِ آرزو میں لطف و عطا کی کرنوں کے پھولوں سے سرمدی رتجگوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اسی لئے شمع رسالت کے پروانے، شہر بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گلیوں کے دیوانے درِ اقدس کی حاضری کو اپنی زندگی کے سفر کی معراج سے تعبیر کرتے ہوئے اپنی غلامی کے نیاز مندانہ حوالے کو بجا طور پر اعتبار و اعتماد کی اسنادِ جلیلہ کا سزا وار گردانتے ہیں، راویات میں آتا ہے کہ نبی آخری الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربارِ پرانوار میں صبح و شام ملائکہ آسمانوں سے اتر کر حاضر کے شرف سے مشرف ہوتے ہیں اور آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کا اعزازِ لازوال حاصل کرتے ہیں۔ اس اعزازِ لازوال کی آرزو ہم جیسے گنہگار، خطا کار اور سیہ کار امتیوں کے بحرِ تمنا میں امواجِ شوق کا طوفان اٹھاتی رہتی ہے۔ اس لئے کہ سوچوں کا یہی اضطراب اور تمناؤں کی یہی بیتابی زندہ و متحرک جذبوں کی بقا و سلامتی کی ضامن ہے۔
بچپن کے قصرِ دلکشا کے شفاف جھروکوں میں یادوں کے ان گنت فانوس روشن ہوتے ہیں تو جس معصوم خواہش کا چہرہ تصور کے آئینہ خانے میں ہر سمت تشنہ آرزوؤں کی پیاس بجھاتا دکھائی دیتا ہے وہ درِ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی آرزو کا چہرہ منور ہے کہ ان گنت چہروں کے ہجومِ بے اماں میں اسی چہرے پر صبحِ ازل کا غازہ ہے اور اسی کے سر پر دستارِ فضیلت سجائی گئی ہے اور یہی چہرہ میری ہی نہیں میرے عہد کی پہچان بھی بنا ہے، گردشِ ایام نصف صدی کا فاصلہ طے کر کے بیسیویں صدی کی چھٹی دہائی میں داخل ہوتی ہے تو شعور کی آنکھ بہت سے عکس اپنے دامن میں محفوظ کر لیتی ہے، گھر کی فضا اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ پاک کے چراغوں سے روشن ہے، درو دیوار بھی آرزوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گہرے پانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، ساعتیں درود پڑھتی ہیں اور پوری کائنات وجد میں آجاتی ہے۔ نعتِ حضور کے پھولوں کی خوشبو کا آنچل فکر و نظر کے ہر زاویے پر محیط ہو جاتا ہے۔ چشمِ تصور اکثر حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لے جاتی ہے، مدینے کے درو دیوار جانے پہچانے سے لگتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے میں ایک بھٹکا ہوا آہو ہوں اور دشتِ طیبہ کی آرزو میں زندگی کی پگڈنڈیوں پر رواں دواں ہوں۔ زندگی کا سفر نشیب و فراز کا سفر ہے۔ دشوار، کھٹن اور مشکل لمحات قدم قدم پر مزاحمت کی دیواریں چنتے ہیں، بچپن سے لے کر آج تک میرا معمول یہ رہا ہے کہ دشوار، کٹھن اور مشکل لمحات میں اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں دستگیری کی التجا کرنے اور مشکل کشائی کی درخواست گزارنے کے بعد آمنہ رضی اللہ عنہا کے لال حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ عطا پر بھی پلکوں سے دست دینے کا اعزاز حاصل کرتا ہوں، آنکھیں بند کر کے ہونٹوں پر درودوں کے گلاب سجا لیتا ہوں اور پھر ادب و احترام کی تصویر بن کر درِ اقدس پر باریابی کی التماس گزارتا ہوں، خود کو مواجہ شریف کی دلکش فضا میں پاتا ہوں اور اپنے تمام مسائل اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر کے نظرِ کرم کے لئے سر تا پا حرفِ انتظار بن جاتا ہوں۔
مجھے تو یہ سعادت اپنے بچپن ہی سے حاصل ہے
تصور میں درِ اقدس پہ جا کر چشمِ تر رکھنا
چشمِ تصور نے ہزار بار مدینے کی گلیوں کا طواف کیا ہے، قافلے والوں سے بچھڑ کر اس شہر خنک کی معطر اور معنبر گلیوں میں قصداً بھٹک جانے کی آرزو دل میں مچلتی رہتی ہے، میں نے ہر شب شہرِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دریچوں کا چراغ بننے کی تمنا کی ہے، دنیائے تصور میں کئی بار گردِ راہ بن کر زائرانِ کوئے وفا کے قدموں کو بوسہ دیا ہے، مضافاتِ مدینہ میں ہوائے مدینہ سے اکثر ہمکلامی کی سعادت حاصل ہوئی ہے، سگانِ مدینہ کی رضا کی طلب کئی بار تمناؤں کی کیاری میں بادِ بہاری کی طرح محوِ خرام رہی ہے، کئی راتیں شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درو بام سے لپٹ کر رویا ہوں، تخلیق کی توانائیاں اور خیال کی رعنائیاں، اس خطہء نور کے دائرہ تصرف سے کبھی باہر ہی نہیں آئیں۔ ایک دیوانے نے اس شہرِ دلآویز کے مکینوں خصوصاً مدینے کی گلیوں میں کھیلنے والے بچوں کے قدموں سے اٹھنے والی دھول کو اپنی پیشانی کا جھومر بنایا ہے۔ شہر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرند پرند سے والہانہ محبت کی ہے، اس قریہء بے مثال کے آسمانوں کی بلائیں لی ہیں، اس خطہء دیدہ و دل کی خاکِ مقدس کی آنکھوں نے کئی بار اپنے دامن میں چھپانے کی سعادت حاصل کی ہے، شہر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درو دیوار سے ایک عجیب سی شناسائی کیف بن کر لہو کی گردش میں مقیم رہی ہے ؎
جب میں پہنچوں گا مدینے کے گلی کوچوں میں
ایک عالم مرا پہلے سے شناسا ہو گا
چشمِ تصور میں درِ اقدس کی حاضری کایہ عمل بھی تمنائے حضوری کو ثمر بار بنانے کی ایک شعوری کوشش ہے۔ میں اکثر چشمِ تصور میں دیکھتا کہ میں ایک پرندہ ہوں اور ہوئے مخالف کی پروانہ کرتے ہوئے ازل سے مدینے کی جانب اڑ رہا ہوں۔ طیبہ کے اشجار پر بسیرا کرتا ہوں، گنبدِ خضرا کی تابانیوں سے دامنِ آرزو کو بھرتا ہوں۔ مدینہ منورہ میں ایک چھوٹے سے گھر کی آرزو غلامانِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلوں میں سوزو گداز کی ان گنت شمعیں جلا جاتی ہے۔ میں نے بھی مدینے کی گلیوں میں ایک چھوٹے سے گھر کی آرزو کر رکھی ہے :
بعد مرنے کے چلے جائیں گے سب سے چھپ کر
ایک گھر ہم نے مدینے میں بنا رکھا ہے
یہ مضمون میری نعت کا بھی موضوع ٹھہرا ہے اور کئی بار شعر کے قالب میں ڈھلتا رہا ہے۔ حیاتِ مقدّسہ کا ایک ایک واقعہ تخیل کے نئے نئے گوشوں کے دامانِ طلب کامقدر بنتا۔ یہی تمنا پیدا ہوتی کہ کاش مجھے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عہدِ مبارک ملا ہوتا او رمیں بھی اپنے احساسِ غلامی کو قافلہء شوق کا پرچم بناتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کب سے نعت کہہ رہا ہوں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اور حافظہ ساتھ دیتا ہے چھٹی یا ساتویں جماعت میں میں نے شہرِ سخن کی فصیلوں پر جلتے چراغوں کی روشنی سے اپنے آئینہ ء دل میںحیرت کی تصویریں بنانا شروع کر دی تھیں۔ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا تو درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبتِ غلامی کا حوالہ مزید مستحکم ہوتا چلا گیا۔ ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ لاہور میں میری ایک نعت پہلی بار شائع ہوئی۔ اس کا مطلع ہے :
خدا کے جلوؤں میں جلوہ فرما تھے آپ ﷺشمس و قمر سے پہلے
اُنہی ﷺکا چرچا تھا لامکاں میں ہجومِ شام و سحر سے پہلے
ایک ایک لمحہ حضور کی آرزو کی تڑپ کی چادر میں لپٹا ہواتھا۔ ایل ایل بی اور ایم اے کے امتحانات پاس کرنے کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو احساسِ غلامی کی تابندگی کو بھی ظہور کے لئے نئے آفاق نصیب ہوئے، یہ 1969ء کا زمانہ تھا۔ میں اکثر سوچتا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے مواقع پر عزیز و اقارب اور دوست احباب کو عید کارڈ روانہ کرتے ہیں، عید میلاد النبی ؐ پر ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اپنے چھوٹے بھائی محمد اسد چودھری کے آرٹسٹ دوست ڈاکٹر شاہد رضا کی خدمت میں التماس کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضے کاڈیزائن تیار کریں، انہوں نے بڑی محنت سے میری فرمائش پوری کی، بلاک بنوایا، زمزمہ پرنٹنگ پریس سے پہلی بار میلاد کارڈ چھپوائے اور تعارفی خط کے ساتھ تمام بڑے بڑے ا شاعتی اداروں، اخبارات اور تمام اسلامی ممالک کے سفراء کو میلاد کارڈ روانہ کئے جس کا انتہائی خوشگوار ردِ عمل ہوا۔ ’’روزنامہ نوائے وقت‘‘ میں میلاد کارڈ کے اجرا کی خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ دوسرے سال بعض اشاعتی اداروں کی طرف سے جواباً نوبہ نو میلاد کارڈ موصول ہوئے تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اِس روایت کو زبردست پذیرائی ملی ہے کہ ربیع الاول کے ماہِ مقدس میں میری پلکوں پر تشکر کے آنسوؤں کی کناری سے لگ جاتی ہے۔ میلاد کارڈ کے اس اشاعتی سلسلے کا اجراء بھی تمنائے حضوری کو عملی صورت میں دیکھنے کی ایک سعی تھی جو اﷲ کے بے پایاں فضل و کرم سے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوئی۔ میلاد کارڈ کی پشت پر چند کلمات بھی درج ہوتے مثلاً سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جو میلاد کارڈ شائع ہوا اس پر یہ عبارت درج تھی کہ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی امت کی بیٹیوں کی عصمت کلکتے کی منڈیوں میں نیلام ہو رہی ہے۔ ’’خونِ رگِ جاں‘‘ کا اعزازی نسخہ اور میلاد کارڈ روزنامہ ’’جنگ ‘‘ کے قطعہ نگار اور ممتازشاعر رئیس امروہوی کی خدمت میں بھی ارسال کیا۔ جواباً انہوں نے مجھے سقوطِ مشرقی پاکستان کے موضوع پر نظم لکھنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ میں نے ’’عظیم المیہ‘‘ کے نام سے ایک طویل نظم لکھی۔ اِس نظم میں بھی حضوری کی تمنا اشکوں میں ڈوبے ہوئے شعری پیکر میں تجسیم ہوئی۔ 1970 میں سقوطِ ڈھاکہ سے قبل میرا پہلا مجموعہ کلام ’’خونِ رگِ جاں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اگرچہ اس میں ملی نظمیں شامل تھیں، اور سقوطِ ڈھاکہ کے آثار لا شعوری طور پر شعر کے قالب میں ڈھل گئے تھے تاہم تمنائے حضوری کی چمک ’’خونِ رگِ جاں‘‘ کی منظومات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
اور پھر شہر اقبال کی ثقافتی اور مجلسی زندگی میں اظہارِ عقیدت کے نئے نہے دروازے وا ہوئے۔ تمنائے حضوری کو ایک نیا آہنگ ملا۔ ہر سال شبِ میلاد نعتیہ محفلِ مشاعرہ کے انعقاد کا آغاز ہوا، ان محافل میں عبدالعزیز خالد، حفیظ تائب، حافظ لدھیانوی، آسی ضیائی، حافظ محمد افضل فقیر، خالد بزمی، ہلال جعفری، راز کاشمیری، عباس اثر، اصغر سودائی، تاب اسلم، راجا رشید محمود، منیر قصوری، عابد نظامی، حسرت حسین حسرت، پروفیسر محمد اکرم رضا، جان کاشمیری، آفتاب احمد نقوی، انور جمال، خلیق ممتاز، کلیم سیالکوٹی، قمر یزدانی، قمر تابش، سید گلزار بخاری، اسلم ملک، ساغر جعفری، ابرار حسین ابرار، اعزاز احمد آذر، رشید آفریں، رفیق ارشد، ازہر منیر، شفیق مشفق، آثم میرزا، اطہر سلیمی، یونس رضوی، وارث رضا، میر عزیز، طارق اسماعیل، شفیع ضامن، محبوب شفیع، منظور کاسف، محمد یونس حسرت، حکیم افتخار فخر، اکرام سانبوی، جمیل نظامی، سردار شاہ جہان پوری، مرتضیٰ جعفری خار، آثم فردوسی، حکیم نیاز اور ارشد طہرانی جیسے ممتاز شعرا شریک ہوتے، نعتیہ کتب کی تقریبات رونمائی کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ ازاں بعد مہمانانِ گرامی اور عمائدینِ شہر میلاد ڈنر میں شرکت کرتے۔ کشور دیدہ و دل میں حضوری کے چراغوں کا اجالا ہوتا کہ کاش ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس زمانہ ملا ہوتا۔ طارق اسماعیل کا یہ شعر :
عالمِ وجد میں رقصاں مرا پر پر ہوتا
کاش میں گنبدِ خضرا کا کبوتر ہوتا
روح کی پہنائیوں میں رچ بس سا گیا۔ یہ شعر آج بھی قلب و نظر میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہکشاں بکھیر رہا ہے، شعراء کے اکثر اشعار میں حاضری اور حضوری کی تمنا مچلتی دکھائی دیتی، شہرِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںپہنچنے کی آرزو پر پھیلاتی تو کیف و سرور کے ان گنت دروازے خود بخود کھل جاتے۔ خوشبوئے اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرفشاں ہوتی تو ہرطرف اجالے بکھر جاتے، گدازِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشعل شبِ تنہائی میں تنہائی کا احساس نہ ہونے دیتی۔
غائبانہ طور پر پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نام اور کام سے متعارف ہو چکا تھا۔ ٹی وی پر فہم القرآن میں انہیں دیکھا اور سنا تو یوں لگا جیسے چشمِ شوق اسی عاشقِ رسول کی منتظر تھی۔ 13 جنوری 1985 کو لاہور میںخلیل الرحمن بھٹی جو بعد میں تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ بھی بنے، کے توسط سے پروفیسر صاحب سے ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے۔ پروفیسر صاحب سے ملاقات کے بعد مسجد رحمانیہ میں مفتی محمد خان قادری جو اس وقت پروفیسر صاحب کے دستِ راست تھے، سے ملاقات ہوئی، ڈاکٹر صاحب اور عارف صاحب نے ان کے پاس دس دس ہزار روپے جمع کروائے۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ہم پروفیسر صاحب کے ساتھ عمرے پر جا رہے ہیں۔ چشمِ تصور نے گنبدِ خصرا کے جلوؤں کو بوسہ دیا۔ عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نگاہِ کرم کا منتظر تو میں بھی ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبا کب حاضری کا پروانہ لے کر آئے گی۔ بہر حال اسی شام ہم واپس سیالکوٹ آگئے۔ دوسرے روز والدِ مکرم الحاج چودھری عبدالحمید صاحب نے پروفیسر صاحب سے ملاقات کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اور عارف صاحب نے عمرے کی ادائیگی کے لئے رقم جمع کرائی ہے۔ انہوں نے ایک لمحہ میرے چہرے کو پڑھا۔ فرمانے لکے تو تم بھی تیاری کرو۔ بس پھر کیا تھا! مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ساری دنیا کی دولت میرے دامن میں ڈال دی گئی ہے۔ خوشی سے ساری رات سو نہ سکا۔ مفتی صاحب کے پاس میں نے بھی مطلوبہ رقم جمع کروادی لیکن بدقسمتی سے پروفیسر صاحب کے ساتھ میرا ویزہ نہ لگ سکا۔ یہ روداد میں اپنے سفر نامہ حجاز ’’لبیک یارسول اللہ لبیک‘‘ میں درج کر رہا ہوں، یہاں تفصیل کی گنجائش بھی نہیں۔ بہرحال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں کھڑا تھا اور حاضری کے اعزاز سے سرفراز ہو رہا تھا۔
میرا اولین نعتیہ مجموعہ ’’زرِ معتبر‘‘ جس میں درِ اقدس کی حاضری تک کا نعتیہ کلام شامل ہے۔ 1995 میں اور دوسرا نعتیہ مجموعہ ’’رزقِ ثنا‘‘ 1999 میں شائع ہوا۔ ان مجموعوں کی نعتوں میں حاضری اور حضوری کی یہ تڑپ نمایاں ہے۔ ایک نعتیہ نظم ’’سوال جس کا جواب تو ہے‘‘ میں بھی براہِ راست اس آرزو کا اظہار ہوا ہے کہ یارسول اﷲ! جب طائف کے بازاروں میں اوباش لڑکوں نے شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ کیا تھا تو کاش میں بھی پتھروں کی بارش میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوشِ کفِ پا کو چوم رہا ہوتا، تمام پتھر اپنے سینے پر روک لیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر گر کر جان دے دیتا۔
کرۂ ارضی پر بسنے والی اولادِ آدم اکیسویں صدی کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ بیسویں صدی دھیرے دھیرے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میری خواہش تھی کہ 2000ء میں اردو ادب کو تین نعتیہ مجموعے دوں، اس لئے کہ سلام شاد دو مجموعوں کی خطاطی کا کام تقریباً مکمل کر چکے تھے۔
رمضان المبارک 1419ھ کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہ جنوری 1999 کی 15 تاریخ تھی۔ جمعتہ الوداع اور 26 رمضان المبارک، اُس شب لیلۃ القدر تھی۔ ایک روحانی رتجگا دل و جاں پر محیط تھا۔ میں اپنی رہائش گاہ (ٹاؤن شپ لاہور) سے بذریہ ویگن ماڈل ٹاَن میں واقع تحریکِ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کی طرف آرہا تھا۔ سفر کے دوران ایک قطعہ ہوا، دفتر تک پہنچتے پہنچتے کئی مصرعے قرطاسِ ذہن پر نقش ہو چکے تھے۔ یہ چھٹی کا دن تھا۔ ڈاکٹر فریدالدین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بند تھا۔ میں نے اندر سے چٹخنی چڑھا لی اور اپنے کیبن میں آگیا۔ قریہء شعور میں احساسات کے قافلے اتر رہے تھے:
دستِ بوسی سے کبھی مجھ کو نہ فرصت ملتی
شہرِ سرکار ﷺکے بچوں کا کھلونا ہوتا
ان دو مصرعوں نے مجھے اندر سے ریزہ ریزہ کر دیا، میں دیر تک دھاڑیں مار مار کر روتا رہا۔ یہاں خدا کے سوا مجھے دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدِ مبارک میں ہونے کی آرزو لفظوں کے پیرہن میں ڈھل گئی۔ حضوری کی مختلف کیفیات ذہن میں مرتب ہونے لگیں۔ الفاظ باوضو ہو کر دست بستہ سوچ کی راہداریوں میں کھڑے تھے اور پھر چند روز میں 150 قطعات پر مشتمل طویل نظم ’’تمنائے حضوری‘‘ حیطہء ادراک سے حیطہء شعور میں آچکی تھی۔
سکون اور اطمینان کا دریا میرے چاروںطرف موجزن تھا۔ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پانیوں میں ترا اپنے ہونٹوں کو چوم رہا تھا وہ ہونٹ جنہوں نے مجھے فکر و نظر کے شاداب موسموں اور مخمور ساعتوں کے گدازِ جاں سے ہمکنار کیا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ اپنے قلم کو بھی بوسہ دیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
حضوری کی یہ کیفیات مختلف اوقات میں مختلف انداز میں دیدہ و دل کو منور کرتی رہی ہیں۔ یہی کیفیات سرمایہء حیات اور زادِ سفر ہیں کہ ان کیفیات کا ایک ایک لمحہ ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرشاریوں کاآئینہ دار رہا ہے۔
1999ء کا نومبر تقریباً خاموشی سے گزر رہا تھا 8 نومبر میرا یوم پیدائش بھی ہے۔ میں عمر عزیز کے 59 ویں سال میںداخل ہو چکا تھا۔ تحریکِ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں واقع رازی ہال کے کمرہ نمبر 12 میں مقیم تھا۔ ان دونوں مَیں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شہر آفاق تالیف ’’سیرت الرسول‘‘ کی جلد نہم (معجزات رسول) کی ترتیب و تدوین کا کام کر رہا تھا۔ نجانے کیوں میں ایک عجیب سی الجھن میں گرفتار ہو گیا۔ موت کا خوف مہیب بادلوں کی طرح میرے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ مجھے ہر طرف موت رقص کرتی ہوئی نظر آتی، میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ نہ میں جسمانی طور پر کسی عارضے میں مبتلا تھا اور نہ کوئی پریشانی دامن گیر تھی، میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اشعار میں اِس انجانے خوف کا اظہار بھی ہو رہا تھا :
اُن ﷺکی ثنا کے واسطے مانگی تھی زندگی
لیکن اسے بھی ملکِ عدم کی تلاش ہے
12 نومبر کو اسلام آباد میں بم کے دھماکے ہوئے تو تشویش لاحق ہوئی کہ خدا خیر کرے، میرا بیٹا محمد حسنین مدثر اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے میں ایم بی اے کی تیاری کر رہا تھا، اسلام آباد میں میری ہمشیرہ آپا عزیز، ان کے بیٹے میاں محمد عالمگیر اور ان کے بیوی بچے مقیم ہیں، راولپنڈی میں آپا حمیدہ کا گھرانہ آباد ہے۔ عارف شفیع، عظمیٰ اور ان کے بچے ہیں۔ میں نے طارق ریسٹورنٹ میں 9 بجے کا خبرنامہ دیکھا تو اطمینان ہوا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
خبریں سن کر میں اپنے دفتر میں آیا، رات گیارہ بجے تک کام کرنا میرا معمول ہے۔ ابھی میں اپنے دفتر میں پہنچا ہی تھا کہ ایک عجیب سی کیفیت میں خود کو پایا۔ یوں لگا جیسے میں بے ہوش ہو رہا ہوں۔ یہ کیفیت تین چار سیکنڈ رہی، پھر سنبھل گیا۔ میں گھبرا کر اپنے دفتر سے باہر آگیا۔ عزیز دوست محمد یونس مل گئے، انہیںصورت حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے فوراً ڈاکٹر کو فون کیا۔ ڈسپنسر نے آکر بلڈ پریشر چیک کیا اور بتایا کہ تشویش کی کوئی بات نہیں، بلڈ پریشر تھوڑا سا زیادہ ہے۔ اپنے کمرے میں جائیں میں ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ آپ کو چیک کروں گا۔ میں یونس صاحب کو ساتھ لے کر کمرے میں آگیا۔ رفتہ رفتہ میری طبیعت سنبھل رہی تھی۔ یونس صاحب نے میری استدعا پر اپنا بستر میرے کمرے ہی میں بچھا لیا۔ ڈسپنسر دوبارہ آیا، میرا بلڈ پریشر 140 تک آچکا تھا اس لئے وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔ میں نے اپنے ذہن کو ذکرِ حضور کی سدا بہار وادیوں میں گم کر دیا۔ یونس صاحب کو بیسیوں نعتیہ قطعات اور اشعار سنا ڈالے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرِ جمیل سوچ کے زخموں پر مرہم بن گیا۔ مجھے بے پناہ ذہنی سکون نصیب ہوا۔ البتہ نیند غائب ہو گئی۔ ایک انجانا سا خوف میرے دل و جاں پر محیط تھا۔ نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد دفتر جانے کی تیاری کرنے لگا اور ناشتے کے بعد اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گیا۔ ’ اپنے ذہنی کرب کا ذکر کئی احباب سے کیا۔ اپنی چھٹی حس کے نامعلوم خدشات سے اپنے تحریکی ساتھیوں علامہ مسکین فیض الرحمن، حاجی غلام مصطفیٰ ملک، شوکت علی قادری، طاہر حمید تنولی، محمد علی قادری، محمد افضل قادری، عبدالجبار قمر، عبدالستار، علی اکبر الازہری، محمد فاروق اور سرفراز خاں کو آگاہ کیا۔
میجر ریٹائرڈ انوار الحسین علوی سے فون پر رابطے کی کوشش کی لیکن ملاقات نہ ہو سکی۔ ناصر اقبال نے مشورہ دیا کہ چند روز کے لئے سیالکوٹ چلا جاؤں۔ دوپہرکو کھانے پر طبیعت پھر خراب ہو گئی۔ سائرہ میموریل ہسپتال جاکر اپنی شوگر چیک کروائی تو وہ مطلوبہ لیول سے خطرناک حد تک کم تھی، رات ڈاکٹر اخلاق احمد بھٹہ صاحب کے ہاں گزاری، ہمشیرہ نسیم نے بھی یہی مشورہ دیا کہ چند روز کے لئے گھر چلا جاؤں۔ چنانچہ میں اسی روز گھر کے لئے روانہ ہوگیا۔ ’’سیرت الرسول‘‘ کا مسودہ میرے پاس تھا کہ ہفتے عشرے میں اسے مکمل کر لوںگا۔ سیالکوٹ میں ڈاکٹر محمد عتیق افضل، ڈاکٹر اعجاز رسول اور اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر جنید حمید کے زیر علاج رہا۔ بلڈ پریشر تو ٹھیک ہو گیا۔ لیکن موت کے خوف سے نجات نہ مل سکی۔ لاہور جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ چھٹی حس عجیب و غریب منظر دکھا رہی تھی۔ بہر حال میں نے فیصلہ کر لیا کہ 22 نومبر کو لاہور جا کر اپنی معمول کی زندگی شروع کردوں گا۔ کرب کے ان لمحات کو میں لمحاتِ حضوری میں تبدیل کر دینے کا آرزومند تھا۔ بار بارسینکڑوں نعتیہ اشعار پڑھتا رہا۔ میں نے ان لمحات کرب میں اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی کہ مولا تو قادرِ مطلق ہے اگر میرا آخری وقت آگیا ہے تو میں تیری رضا کے آگے سر جھکاتا ہوں، تو میری خطاؤں سے در گزر کر، میرے مالک ان دنوں میں ’’سیرت الرسول‘‘ پر کام کر رہا ہوں، اِس کی تین جلدیں شائع ہونا باقی ہیں۔ مولا! مجھے یہ کام مکمل کرنے کی مہلت دے دے، یا باری تعالیٰ! ساری عمر تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا میں گزری ہے۔ تین چار نعتیہ مجموعے زیرِ ترتیب ہیں، ’’لبیک یارسول اﷲ لبیک‘‘ کے نام سے سفر نامہ حجاز مکمل کرنا چاہتاہوں، مولا! مجھے ان کتابوں کی اشاعت کے لئے وقت دے دے، 22 نومبر1999 (سوموار) کی صبح اپنی اہلیہ ساجدہ بیگم سے کہا کہ لاہو رجانے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ ایک انجانا سا خوف میرے ہم رکاب تھا۔ بہر حال اہلیہ کو خدا حافظ کہا، بچے اس وقت سو رہے تھے اور لاری اڈے پر پہنچ گیا۔ فلائنگ کوچ تیار کھڑی تھی۔ فرنٹ سیٹ خالی تھی، سو میں اس پر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے اپنی پچھلی نشست پر بیٹھی خواتین سے کہا کہ آپ فرنٹ پر آجائیں۔ لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ گاڑی لاہور کے لئے روانہ ہوئی، شہر سے نکلتے ہی حسبِ معمول مجھے اونگھ آگئی او رپھر ہماری فلائنگ کوچ ایک خوفناک حادثے کا شکار ہو گئی۔ آنکھ کھلی تو ڈسکہ ہسپتال میں تھا۔ مجھے اپنے برادران محمد ارشد چوہدری، محمد امجد چودھری، اطہرحمید، اکمل حمید اور ڈاکٹر جنید حمید کے چہرے نظر آئے۔ اپنے بھانجے خالد شفیع اور شاہد شفیع کو بھی میں نے پہچان لیا۔ نیم غنودگی کے عالم میں اپنے داماد مختار احمد اور ان کے بڑے بھائی منظور احمد مغل بھی دکھائی دیئے۔ محمد اسلم چوہدری اور محمد اجمل چودھری بھی موجود تھے۔ امی جان، میری اہلیہ، ہمشیرہ تسنیم کوثر، تنویر کوثر اور میری بھانجیاں صبیجہ اور ادیبہ بھی نظر آئیں تو احساس ہوا کہ میں زندہ ہوں۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ میں پچھلے دنوں موت کے تصور سے کیوں کانپ اٹھتا تھا۔ میری چھٹی حس بار بار مجھے متوجہ کرتی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ حادثے کے فوراً بعد نیند کے عالم میں مَیں بے ہوش ہو چکا تھا لیکن بے ہوشی کے عالم میں بھی ’’سیرت الرسول‘‘کا مسودہ میرے سینے سے جدا نہیں ہوا۔ یہ بھی حضوری کی ایک کیفیت تھی۔ اگر مجھے ’’سیرت الرسول‘‘ کی اقلیمِ اشاعت میں بازیابی کی سعادت نصیب نہ ہوئی ہوتی تو ممکن ہے نعتیہ نظم ’’تمنائے حضوری‘‘ بھی لاشعور سے شعور تک کا سفر طے نہ کر پاتی۔ دوسرے دن ذرا سنبھلا تو میں نے پوچھا کہ میرے پاس تو سیرت الرسول کا مسودہ بھی تھا، وہ کہاں ہے؟ چنانچہ بردارانِ عزیز اطہر حمید اور اکمل حمید پہلے جائے حادثہ پر پہنچے اور پھر ڈسکے کے ہسپتال میں متعلقہ ڈاکٹر سے مسودے کے بارے میں پوچھا۔ ڈاکٹرصاحب نے اپنی میز کی دراز میں سے مسودہ نکال کر ان کے سپرد کیا اور 24 نومبر کو ہی میں نے یہ مسودہ اپنے ایک تحریکی ساتھی کے ہاتھ لاہور بھجوا دیا۔ برادر عزیز محمد اظہر چوہدری بتاتے ہیں کہ میں تیمارداری کرنے والوں کو نیم بے ہوشی کے عالم میں بھی اپنے نعتیہ اشعار ہی سناتا اور ’’تمنائے حضوری‘‘ سے اقتباسات پیش کرتا رہا۔ اﷲ رب العزت کے بے پایاں فضل و کرم کا کن الفاظ میں شکر ادا کروں کہ کرب کے ان لمحات میں بھی میرے لبوں پر اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا کے پھول کھلتے رہے ہیں۔ تمنائے حضوری کا یہی دلکش اسلوب میرا توشہء آخرت بھی ہے :
لمحاتِ حاضری کی تمنا لئے ہوئے
ایک ایک لمحہ عمر رواں کا بسر ہوا
ریاض حسین چودھری
(28 مئی 2000ء - لاہور)