گھر میں قرطاس و قلم کا کارواں ٹھہرا ہوا- آبروئے ما (2014)
گھر میں قرطاس و قلم کا کارواں ٹھہرا ہوا
سرورق پر نعت کا مطلع بھی ہے اترا ہوا
حشر میں نقشہ کُھلے جب شہرِ طیبہ کا حضورؐ
ایک دروازے پہ میرا نام ہو لکھّا ہوا
خلد سے بادِ بہاری نعت کے لائی گلاب
میرے اندر کا ہے موسم آج بھی نکھرا ہوا
لفظ تصویرِ ادب بن کر ابھی سجدے میں ہیں
کیف کے عالم میں ہے میرا قلم ڈوبا ہوا
آپؐ کے اسمِ گرامی کی بدولت، یانبیؐ
اک غریبِ شہرِ آوارہ کا بھی چرچا ہوا
جس کی آنکھوں میں حضوری کا جلا روشن چراغ
یادگارِ زندگی ہر ایک وہ لمحہ ہوا
اشکباری کے سفر میں روشنی ہوتی رہی
لوٹ آئے کاش، وہ لمحہ کبھی گذرا ہوا
کیا مری اوقات آقاؐ‘ کیا مرا نام و نسب
آپؐ کے بازار میں آیا ہوں مَیں بِکتا ہوا
ہر کہانی میں مری اپنی کہانی ہے، حضورؐ
مَیں کئی برسوں سے ہوں اخبار میں بکھرا ہوا
حوصلہ دیجے مجھے پھر حوصلہ دیجے، حضورؐ
عکس ہے خالی فریموں کی طرح ٹوٹا ہوا
آپؐ کے در پر کھڑا ہوں، کیجئے میری مدد
ان گنت زندہ مسائل میں ہوں مَیں الجھا ہوا
آپؐ نے توحید کا پرچم کیا آکر بلند
آدمی صدیوں سے صحراؤں میں تھا بھٹکا ہوا
آپؐ کی معراج نے بخشا شعورِ کائنات
وقت کو میرے خدا نے تھا کہیں روکا ہوا
جاں نثاروں کے وطن پر ہو نگاہِ التفات
ملتجی ہے ذرہ ذرہ، یانبیؐ، روتا ہوا
ہو کرم اپنی رعایا پر مسلسل، یانبیؐ
کب سے فریادی ہے میرا آشیاں جلتا ہوا
امتِ ناداں کا حالِ زار کیا لکھوّں، حضورؐ
اک ہجومِ بے خبر، صدیوں سے ہے سویا ہوا
گنبدِ خضرا میں آقائے مکرمؐ کو بہت
امتِ عاصی کی بدحالی پہ ہے صدمہ ہوا
ہر بلا سے رکھ اسے محفوظ ربِّ ذوالجلال
ابرِ رحمت گھر کی دیواروں سے ہو لپٹا ہوا
آج بھی خیرات کچھ پائے مبارک کی ملے
میرا بیٹا ہے تلاشِ رزق میں نکلا ہوا
احترامِ مصطفیٰؐ کی خوشبوئیں بانٹوں ریاضؔ
میرے ہونٹوں پر ادب کا پھول ہے مہکا ہوا
وہ ملی کالی گھٹا تشنہ زمینوں کو ریاضؔ
آخری قطرہ بھی ہے جس کا کہیں برسا ہوا