شہرِ سرکارؐ کے بام و در روشنی- آبروئے ما (2014)
شہرِ سرکارؐ کے بام و در روشنی
اُنؐ کی نسبت سے ہے چشمِ تر روشنی
اُس فضائے منوّر میں اڑتے ہوئے
ہر کبوتر کے ہیں بال و پر روشنی
سرد کرّے کے تاریک ماحول میں
مَیں نے دیکھی ہے شام و سحر روشنی
نعت لکھنے کا جب بھی ارادہ کیا
میرے دامن میں آئی اتر روشنی
ختم ہوتی ہے جو اُنؐ کی دہلیز پر
در حقیقت ہے وہ رہگذر روشنی
روشنی ہو اِدھر، روشنی ہو اُدھر
آرزو ہے مری مختصر، روشنی
چاند تارے اگیں میرے ہر کھیت میں
کیا کروں لے کے مَیں بے ثمر روشنی
پھول، کلیاں، شگوفے درودی ہوئے
آکے اتری ہے ہر شاخ پر روشنی
ضو میں لکھتا رہا نعتِ خیرالبشرؐ
ساتھ میرے رہی عمر بھر روشنی
عہدِ رفتہ کی عظمت اِسے پھر ملے
کیا پھرے گی ابھی در بدر روشنی
نقشِ پائے محمدؐ کا پر تو ہے یہ
اپنی نسبت سے ہے بے خبر روشنی
شہر سرکارؐ کے ان مضافات میں
آج بھی ڈھونڈنا ایک گھر، روشنی!
شام ہوتی نہیں، رات ہوتی نہیں
مستقل خیمہ زن ہے اُدھر روشنی
تیرگی ہے تعاقب میں میرے خدا
پھر کرے آکے مجھ کو بسر روشنی
مَیں مسافر ازل سے مدینے کا ہوں
میرے چہرے پہ گردِ سفر روشنی
یا خدا! تیری مخلوق میں رات دن
بانٹتا ہی رہے بے ہنر روشنی
یہ ریاضؔ اُنؐ کے قدموں کی خیرات ہیں
خوشبوئیں، پھول، پتے، شجر، روشنی