غبارِ شہرِ جاں لعلِ بدخشاں کیوں نہیں ہوگا- آبروئے ما (2014)
غبارِ شہرِ جاں لعلِ بدخشاں کیوں نہیں ہوگا
جہانِ نعت ہے خوشبو بداماں کیوں نہیں ہوگا
سجے رہتے ہیں جس میں عکس گلزارِ مدینہ کے
قلم کا آئنہ تختِ سلیماںؑ کیوں نہیں ہوگا
مرے اشعار میں ہے آپؐ کے کردار کی خوشبو
مرے اندر کا انساں اب مسلماں کیوں نہیں ہوگا
چنی ہے خاکِ انور خواب کے عالم میں امشب بھی
مرے گھر کے شبستاں میں چراغاں کیوں نہیں ہوگا
نمازِ فجر تک جاری رہی میلاد کی محفل
سویرا میری بستی میں مری جاں کیوں نہیں ہوگا
مَیں اوراقِ تمنا پر اُنہیؐ کا نام لکھتا ہوں
چراغِ آرزو دل میں فروزاں کیوں نہیں ہوگا
خیالِ گنبدِ خضرا مری سوچوں میں رہتا ہے
تصور اب مرا رشکِ گلستاں کیوں نہیں ہوگا
مدینے سے بلاوا آئے گا ہم بے نواؤں کو
ہر اک لمحہ جو مشکل ہے وہ آساں کیوں نہیں ہوگا
کھُلے گا آپؐ کی مدحت نگاری کا وہاں دفتر
مرے ہمراہ محشر میں قلمداں کیوں نہیں ہوگا
خدا کا فضلِ بے پایاں ہے ہر اک سانس میں شامل
مری بخشش کا میرے ساتھ ساماں کیوں نہیں ہوگا
حصارِ امنِ طیبہ سے نکل کر آدمِ خاکی
غبارِ شامِ مبہم میں پریشاں کیوں نہیں ہوگا
ریاض اُنؐ کی غلامی امنِ عالم کی ضمانت ہے
ہجومِ بے ادب، دست و گریباں کیوں نہیں ہوگا