بجز ثنائے شہِ بحر و بر نہیں رکھتا- خلد سخن (2009)
بجز ثنائے شہِ بحر و بر نہیں رکھتا
میں اپنی جیب میں لعل و گہر نہیں رکھتا
جسے یقین کی دولت نصیب ہو جائے
سفر میں ساتھ وہ زادِ سفر نہیں رکھتا
حضورؐ، ہجر کے موسم کی پہلی بارش میں
وہ کیا کرے جو ابھی بال و پر نہیں رکھتا
یہ کون دیتا ہے لفظوں کو وصفِ زیبائی
مَیں اپنے ہاتھ میں کوئی ہنر نہیں رکھتا
جسے ہو خوف خدا کا، خدا کی بستی میں
وہ زر کے جھوٹے خداؤں کا ڈر نہیں رکھتا
کیا ہو جس کو غنی مدحتِ پیمبرؐ نے
وہ بے نوا ہوسِ مال و زر نہیں رکھتا
فقط حضورؐ کے روضے کا عکس دیکھو گے
جگہ جگہ پہ مَیں چشمان تر نہیں رکھتا
گلابِ نعت کھِلے گا کوئی بھی موسم ہو
اسی لیے میں اسے شاخ پر نہیں رکھتا
ازل سے طوقِ غلامی مرا مقدّر ہے
مَیں کب اسیر ہوا، کچھ خبر نہیں رکھتا
مَیں کیسے اُس کی قیادت پہ اعتماد کروں
درِ نبیؐ سے وہ نسبت اگر نہیں رکھتا
ریاضؔ، کیفِ مسلسل میں چاہتا ہوں رہوں
فصیلِ نعتِ پیمبرؐ میں در نہیں رکھتا