مدینے کے مسافر! ہیں سفر میں سائباں کتنے؟- کائنات محو درود ہے (2017)
مدینے کے مسافر! ہیں سفر میں سائباں کتنے؟
ترے ہمراہ نکلے ہیں دعا کے کارواں کتنے؟
جوارِ گنبد خضرا میں رہتی ہیں مری آنکھیں
اتر آتے ہیں تنہائی میں منظر ناگہاں کتنے؟
مدینے کے گلی کوچوں میں ہے برسات کا موسم
مری آنکھو! کہو کچھ تو گرے اشکِ رواں کتنے؟
دیے، خوشبو، ستارے، چاندنی، بادِ خنک، شبنم
ہمارے ساتھ ہیں اُنؐ کی گلی میں مہرباں کتنے؟
کرم کی ہو مقرر کوئی حد، ایسا نہیں ممکن
تخیل کی گذر گہ میں پڑے ہیں گلستاں کتنے؟
شبِ معراج کا کچھ حال ہم بھی تو سنیں تجھ سے
ستارے اُنؐ کی راہوں میں بچھے تھے کہکشاں! کتنے؟
کبھی دریائے رحمت کے کنارے پر کھڑے ہونا
اٹھا رکھّے ہیں خالی جام اے پیرِ مغاں کتنے؟
عرب کے ایک اک ذرّے کی عظمت کا بیاں کیا ہو
عجم کے ریگ زاروں میں ملے ہیں آسماں کتنے؟
تجھے سرکارؐ کی طاعت کا دعویٰ ہے بہت لیکن
کتابِ روز و شب میں ہیں لکھے حرفِ اذاں کتنے؟
بتاؤں کیا کسی نقادِ بے رس کو سرِ مکتب
چراغِ نعتِ ختم المرسلیںؐ ہیں زر فشاں کتنے؟
یہ محشر ہے حسابِ نیک و بد ہونے کا موقع ہے
درودِ پاک دامن میں ہیں اے میری زباں کتنے؟
صبا طیبہ سے جب لوٹی تو استقبال کی خاطر
پرندوں سے ہوئے خالی، ہواؤ! آشیاں کتنے؟
وہیؐ ارض و سما کی ہر کسی مخلوق کے رہبر
سوائے سرورِ کونینؐ کے ہیں ترجماں کتنے؟
ہر اک لمحے کے سر پر دستِ شفقت ہے پیمبرؐ کا
کھڑے ہیں دست بستہ آپؐ کے در پر زماں کتنے؟
مَیں اکثر پوچھتا رہتا ہوں کلکِ نور و نکہت سے
سرِ اوراقِ مدحت اشکِ تر ہوں گے رواں کتنے؟
در و دیوار بھی خاموش رہتے ہیں سرِ مقتل
مقدر میں ہمارے ہیں اذّیت کے جہاں کتنے؟
کسی ویراں جزیرے میں پنہ ملتی نہیں اس کو
ابھی باقی ہیں امت کے خدایا! امتحاں کتنے؟
کبھی تاریخ کے اوراق الٹیں میر و سلطاں بھی
ہوئے ہیں منحرف چہرے ازل سے بے نشاں کتنے؟
ریاضِؔ نعت گو سچ سچ بتا شامِ پریشاں میں
گئے ہیں سال عمرِ مختصر کے رائیگاں کتنے؟