روشنی نے ذکر چھیڑا آپؐ کے کردار کا- کائنات محو درود ہے (2017)
روشنی نے ذکر چھیڑا آپؐ کے کردار کا
بھر گیا دامن ستاروں سے مرے افکار کا
جس میں تھا اسمِ محمدؐ جلوہ گر، میرے رفیق!
وہ تراشہ ڈھونڈتا پھرتا ہوں مَیں اخبار کا
عمر بھر جلتا رہا ہے دھوپ میں میرا بدن
کیا خنک سایہ ہے طیبہ کے در و دیوار کا
کِھلنے لگتے ہیں چمن زاروں میں مدحت کے گلاب
نام جب ہونٹوں پہ آتا ہے مری سرکارؐ کا
آرزو دم توڑ جائے یہ نہیں ممکن کبھی
منتظر سارا جہاں ہے آپؐ کے دیدار کا
پھر ستارا ہو مرا اوجِ ثریّا سے بلند
پھر مقدر میں ہو پھیرا قریۂ انوار کا
ہر قدم پر عافیت کے پھول برساتے رہے
ہر جہاں ہے امنِ عالم کے علمبردار کا
کچھ نہ کچھ زادِ سفر بھی پاس ہونا چاہئے
حشر میں سکّہ چلے گا احمدِ مختارؐ کا
سارے بحرانوں سے آئیں گے نکل، اہلِ وطن
رخ مدینے کی طرف ہو قافلہ سالار کا
ڈھونڈتے رہتے ہیں لفظوں میں مدینے کا جمال
اذن ہو لوح و قلم کو آپؐ کے دیدار کا
میرے یہ آنسو خریدے جا نہیں سکتے ریاضؔ
مجھ کو اندازہ ہے کچھ کچھ گرمیٔ بازار کا
نا خدا کے پاس ہے نقشہ مدینے کا ریاضؔ
خوف کیا ہو گا اسے گرداب کا منجدھار کا