ثنا کے رتجگوں میں لب کشا عمرِ رواں گذری- کائنات محو درود ہے (2017)
ثنا کے رتجگوں میں لب کشا عمرِ رواں گذری
مری شامِ دعا ہر روز زیرِ آسماں گذری
فرشتوں نے بڑے ہی شوق سے دیکھا سرِ محشر
اٹھائے نعت کی رم جھم، قلم گذرا، زباں گذری
وہاں رحمت کی بارش میں قلم بھی رقص کرتا تھا
بتاؤں کیا کہ شامِ التجا میری کہاں گذری
اُسی کا نام لیتی ہے مری کاغذ کی ہر کشتی
سماعت کے جزیروں سے مسلسل ہے اذاں گذری
کرم ہے آپؐ کی ذات گرامی کا غلاموں پر
کرن اک خوش نصیبی کی پسِ وہم و گماں گذری
قلم نے جب ورق کو چوم کر اسمِ نبیؐ لکھّا
فلک سے جھوم کر اتری، گلی سے کہکشاں گذری
ستارے جھلملا اٹھّے ہزاروں اس کی پلکوں پر
مورخ کی نظر سے جب ہماری داستاں گذری
درودِ مصطفیؐ پڑھتے ہوئے چھوٹے سے کمرے میں
خدا کا شکر ہے ہر شام میری زر فشاں گذری
میں اُس ساعت کی خوشبو کو لگا لیتا ہوں سینے سے
مدینے کے تصوُّر میں جو گذری گلفشاں گذری
ریاضؔ اپنے گریباں میں یدِ بیضا ہے مدحت کا
نہیں، ہرگز نہیں عمرِ گذشتہ رائیگاں گذری