لائے صبا کسی دن پھر اذن حاضری کا- کائنات محو درود ہے (2017)

لائے صبا کسی دن پھر اذن حاضری کا
بس ہے یہی مداوا برسوں کی تشنگی کا

ہر روز ہم کو لے کر جاتی ہے اُنؐ کے در پر
دامن پکڑ لیا ہے آقاؐ کی شاعری کا

عفو و کرم کے چن لیں پلکوں سے پھول ہم بھی
رکھّا ہوا ہے در پر سامان دلبری کا

آقائے محتشمؐ کی کیا بات پوچھتے ہو
آقائے محتشمؐ ہیں ایمان ہر کسی کا

اُنؐ پر درود پڑھنا، اُنؐ کو سلام کرنا
دراصل ہے تقاضا اللہ کی بندگی کا

اس رہگذر میں آؤ اپنے چراغ لے کر
جاری سفر رہے گا صدیوں کی روشنی کا
ہر ہمسفر ہمارا دیکھے گا روزِ محشر
وردِ زباں وظیفہ ہوگا نبیؐ نبیؐ کا

اربابِ دل کو دیں گے حُبِّ نبیؐ کی شبنم
مقصد یہی ازل سے رکھّا ہے زندگی کا

نبیوں کے پیشوا کا مہکا رہے گا گلشن
روشن رہے گا منظر سرکارؐ کی گلی کا

رکھّیں گی طاقِ جاں میں روشن دیا ہوائیں
چہرہ سیہ ہے میرے اندر کے آدمی کا

اوراق تشنہ لب ہیں میری بیاضِ جاں کے
اِس کو عطا ہو یا رب! ہر لفظ آگہی کا

ہر نعتِ مصطفیؐ کا ابلاغ ہے مکمل
ہر لفظ لب کشا ہے لیکن کسی کسی کا

آقا حضورؐ آ کر دیں گے ہمیں دلاسہ
مائل ہیں خود کشی پر، عالم ہے جانکنی کا

ہر رہنما کے اندر اک راہزن چُھپا ہے
انجام کیا ہوا ہے امت کی سرکشی کا

آغوشِ شب میں اپنا ہر پیڑ سو رہا ہے
سورج اگے زمیں سے لیکن ہنر وری کا

جھوٹی انا کو اس کے ملبے میں دفن کر دو
پندار ٹوٹ جائے انساں کی بے حسّی کا

غیروں کے آستاں پر سائل بنی ہوئی ہے
چارہ، حضورؐ، کوئی امت کی بے بسی کا

ہر شب ریاضؔ لکھّیں سرکارؐ کا قصیدہ
پر تو پڑے قلم پر طیبہ کی چاندنی کا

٭

تم انگلیوں پہ گنتے ہو کیا معجزات کو
ہر لمحہ معجزہ ہے حیاتِ رسولؐ کا