تجلّی ہی تجلّی ہے فضائے شہرِ طیبہ میں- کائنات محو درود ہے (2017)
تجلّی ہی تجلّی ہے فضائے شہرِ طیبہ میں
اخوت کا دبستان ہے ہوائے شہرِ طیبہ میں
جنابِ ہادیٔ برحقؐ کے صدقے میں مرے رب نے
بڑی تاثیر رکھّی ہے دعائے شہرِ طیبہ میں
یہاں ہونٹوں کی جنبش کا تکلف بھی نہیں کرتے
چراغِ آرزو پھر بھی جلائے شہرِ طیبہ میں
زمیں کی گود میں انوار و نکہت کے خزانے ہیں
خنک موسم مچلتے ہیں بنائے شہرِ طیبہ میں
غلامی کا رہا احساس بزمِ شعر میں زندہ
گلابِ نعت ہونٹوں پر کھلائے شہرِ طیبہ میں
کبھی سرکارؐ چلتے ہوں گے ان زرتاب گلیوں میں
ہزاروں آئنے ہم نے بچھائے شہرِ طیبہ میں
قلم کے وجد میں آنے کا منظر خوبصورت ہے
قلم نے بھی گلِ تازہ اٹھائے شہرِ طیبہ میں
مواجھے میں ہر اک زائر کے ہاتھوں پر محبت سے
مرے آنسو ہواؤں نے جلائے شہرِ طیبہ میں
مرے اندر کے انساں نے وضو کرکے پسِ مژگاں
مجھے نقشِ قدم اُنؐ کے دکھائے شہرِ طیبہ میں
زمینِ دیدہ و دل تُو ہماری آبرو رکھنا
وفا کے پیڑ ہم نے بھی لگائے شہرِ طیبہ میں
حدودِ شہرِ طیبہ میں مجھے رہنا ہے محشر تک
ہوا خاکِ بدن میری اڑائے شہرِ طیبہ میں
ادب سے اوڑھ لے پہلے چنریا ا برِ رحمت کی
مری کلکِ ثنا سر کو جھکائے شہرِ طیبہ میں
مرے دل میں بھٹکتی آرزو ہر اپنے دامن کو
زر و مال و جواہر سے چھڑائے شہرِ طیبہ میں
تخیل یہ فضا میں اڑ رہا ہے کس لئے آخر
گھروندے آرزوؤں کے بنائے شہرِ طیبہ میں
ریاضؔ اک ایک ذرّے میں ہزاروں دیکھ کر سورج
چراغ اپنی ہتھیلی کے بجھائے شہرِ طیبہ میں