شعاعِ مہر و مہ کے ہاتھ میں پرچم ثنا کے ہیں- کائنات محو درود ہے (2017)

شعاعِ مہر و مہ کے ہاتھ میں پرچم ثنا کے ہیں
ازل سے، اہتمامِ مدحتِ آقاؐ، خدا کے ہیں

مدینے کی فضا سر تا قدم رحمت ہی رحمت ہے
مناظر جس قدر دلکش ہیں، شہرِ مصطفیؐ کے ہیں

حرا سے ارضِ پاکستاں کا ہر قریہ منّور ہے
زمین و آسماں پر یہ اجالے نقشِ پا کے ہیں

لبوں کو سرخ پھولوں سے بھی نازک تر نہ کیوں لکھّوں
صحیفے نعتِ ختم المرسلیںؐ جب لب کُشا کے ہیں

عطائیں ہی عطائیں ہیں، دعائیں ہی دعائیں ہیں
ہوائیں، روشنی، ارض و سما خیرالوریٰؐ کے ہیں

درِ سرکارؐ پر تقسیم ہوتے ہیں گہر لاکھوں
جو برسے ہیں گہر بستی میں وہ لطف و عطا کے ہیں
ورق پر میرے اشکوں نے سجا رکھّی ہے بینائی
قلمداں کے اثاثے سب حروفِ التجا کے ہیں

مرے دامانِ حیرت میں مرادوں کی کھِلیں کلیاں
تہجد کی نمازِ عشق میں سجدے دعا کے ہیں

زرِ خاکِ مدینہ سے مری نسبت خدا رکھّے
مرے جتنے بھی ہیں اعمال وہ سارے وفا کے ہیں

زمیں پر خونِ ناحق بہہ رہا ہے یارسول اللہ
بدن پر زخم جو ہیں استعارے کربلا کے ہیں

مجھے کشکول لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی
کرم سرکارؐ کے روزِ ازل سے انتہا کے ہیں

شبِ معراج انوار و تجلّی کے فرشتوں نے
ورق جتنے بھی الٹے ہیں کتابِ ارتقا کے ہیں

ریاضِؔ بے نوا کو روشنی دے امن کی یارب!
فتور و فتنہ و شر سلسلے جھوٹی انا کے ہیں