نقوشِ شام ہجراں پورے منظر سے ہٹادے گی- کائنات محو درود ہے (2017)

نقوشِ شامِ ہجراں پورے منظر سے ہٹا دے گی
صبا آکر در و دیوار پھولوں سے سجا دے گی

ہوا کے دوش پر اڑتی گھٹاؤ! اس طرف آؤ
برسنے کا سلیقہ میری چشمِ تر سکھا دے گی

ذرا تم بادباں اپنے مدینے کی طرف رکھنا
ہوائے تند کشتی کو کنارے سے لگا دے گی

مرے جذبات کی شدت، محبت سے پسِ مژگاں
شبیہہِ گنبدِ خضرا ہتھیلی پر سجا دے گی

مجھے آخر درِ سرکارؐ کا سائل ہی بننا ہے
مجھے عشقِ پیمبرؐ کی دعا کلکِ رضاؒ دے گی

مَیں سب کچھ مانگ لوں گا آپؐ کی شانِ کریمی سے
تڑپ شامِ مدینہ کی، حروفِ التجا دے گی

مجھے کامل یقیں ہے در گذر فرمائیں گے آقاؐ
مرے اشکوں کی بارش داغ دھبے سب مٹا دے گی

نظر آئے گا چاروں سمت تجھ کو گنبدِ خضرا
ہوا اُنؐ کی گلی میں منتظر آنکھیں بچھا دے گی

مری بھی دوستی ہے خلدِ طیبہ کی بہاروں سے
کہاں سے آپؐ گذرے تھے مجھے خوشبو بتا دے گی

شعورِ بندگی دے کر، مصلّے پر غلاموں کو
وہی ذاتِ گرامیؐ اپنے مولا سے ملا دے گی

ہوائے عجز بھر دے گی مرے آنگن کو کرنوں سے
مجھے کیا خاک دامن میں مری جھوٹی انا دے گی

چلو گے تو ریاضِؔ خوشنوا ہر پیڑ کے نیچے
تمنائے دلِ مضطر حضوری کی دعا دے گی