وطن کے سر پہ طیبہ کے خنک بادل کا سایہ ہے- کائنات محو درود ہے (2017)
وطن کے سر پہ طیبہ کے خنک بادل کا سایہ ہے
جو شب بنجر زمینوں کے بدن پر خوب برسا ہے
مَیں بچپن سے بڑھاپے تک مدینے کا مقامی ہوں
مرا ہر ایک لمحہ آپؐ کی گلیوں میں گذرا ہے
مری کاغذ کی کشتی کو نہیں ڈر باد و باراں کا
مدینہ عافیت کا آخری روشن جزیرہ ہے
عزیز از جان ہیں جنت میں نہریں دودھ کی لیکن
مدینے کی تمنا پھر مدینے کی تمنا ہے
بجز نعتِ نبیؐ، رختِ سفر میں کچھ نہیں باندھا
مدینے کا مسافر ہی تو مہمانِ مدینہ ہے
مسلسل روشنی رہتی ہے توصیفِ پیمبرؐ کی
مری چھوٹی سی کٹیا میں اجالا ہی اجالا ہے
مرے کمرے میں سائے شام کے داخل نہ ہو پائیں
در و دیوارِ طیبہ پر مرے اشکوں نے لکھّا ہے
مری ہر سانس کو رکھنا سکوں پرور فضاؤں میں
شفا دے اے خدا! ہر یاسیت کا زخم گہرا ہے
مری سوچوں کے جنگل میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا
حصارِ خوف سے شاعر بڑی مشکل سے نکلا ہے
کوئی پہچان رکھتا ہی نہیں مَیں دوسری یارب!
مرے اعمال نامے میں فقط اُنؐ کا حوالہ ہے
ستارے چن رہے ہیں التجائیں اُنؐ کی چوکھٹ پر
یہ منظر خوبصورت میری آنکھوں نے بھی دیکھا ہے
مرے اسلوبِ مدحت کو خدا عمرِ دوامی دے
خدا کے فضل سے لہجہ مرا صدیوں کا لہجہ ہے
شفق کی روشنی پھوٹی ہے شہرِ دیدہ و دل میں
قلم کی وادیٔ نکہت میں طیبہ کا سویرا ہے
یہ خاموشی سے نعتیں لکھتا رہتا ہے پیمبرؐ کی
ریاضِ نعت گو کا اس لئے بستی میں چرچا ہے