جیوں گا شہرِ طیبہ میں مروں گا شہرِ طیبہ میں- کائنات محو درود ہے (2017)
جیؤں گا شہرِ طیبہ میں، مروں گا شہرِ طیبہ میں
قیامِ حشر تک لوگو! ملوں گا شہرِ طیبہ میں
پہنچ تو لوں درِ سرکارؐ پر اے ہمسفر! میرے
حروفِ التجا بن کر رہوں گا شہرِ طیبہ میں
پسِ اوراق اپنا نام لکھنا کب ضروری ہے
لکھوں گا تو ثنا اُنؐ کی لکھوں گا شہرِ طیبہ میں
رہے جو مستقل روشن در و دیوارِ طیبہ پر
دیا مٹی کا اک ایسا بنوں گا شہرِ طیبہ میں
ہزاروں اشک ہیں اس میں مری اپنی ندامت کے
چھُپا کر چشمِ پرنم کو رکھوں گا شہرِ طیبہ میں
رہے گی ساتھ میرے ہر قدم پر خود فراموشی
میں جامِ عشقِ پیغمبرؐ پئیوں گا شہرِ طیبہ میں
عجم کی خاک میں ہے دفن ہر جھوٹی انا میری
ہمیشہ سر جھکا کر مَیں چلوں گا شہرِ طیبہ میں
مری اوقات ہی کیا ہے بخوبی علم ہے مجھ کو
مَیں دستارِ غلامی خود بنوں گا شہرِ طیبہ میں
ہوا سے دوستی کی تھی فقط اس واسطے مَیں نے
چراغِ آرزو بن کر جلوں گا شہرِ طیبہ میں
کلاہِ مدحتِ خیرالبشرؐ کے جو نہیں قائل
مَیں اپنا ہمنوا اُن کو کروں گا شہرِ طیبہ میں
غبارِ راہ سے سنگت پرانی ہے ریاضؔ اپنی
کروڑوں پھول پلکوں سے چنوں گا شہرِ طیبہ میں