مطافِ عشق میں چلنا مرا مقدر ہے- کائنات محو درود ہے (2017)
مطافِ عشق میں چلنا مرا مقدر ہے
بیاضِ نعت کا ہر ہر ورق مصَّور ہے
خرید لوں گا غلامی کی ایک اک زنجیر
تجوریوں میں زرِ مدحتِ پیمبرؐ ہے
جلا چکا ہوں مَیں عمرِ رواں کی تصویریں
دل و نگاہ میں بس حاضری کا منظر ہے
محیط، شام و سحر پر ہے وَجْد کا عالم
سرور و کیف کی ہر کیفیت معطر ہے
درود پڑھتے ہوئے جگنوؤں کا کیا کہنا
غبارِ شب میں چراغوں کا ایک لشکر ہے
مدینہ نام ہے جس خطۂ محبت کا
سکون و امن کا پھیلا ہوا سمندر ہے
نبیؐ کے نام پہ جو رقص میں نہیں آتا
سمجھ لو دل نہیں سینے میں ایک پتھر ہے
زمیں پہ جھوٹے خداؤں کو مسترد کر دو
ہمارا خالق و مالک خدائے اکبر ہے
وفا کی تتلیاں شمعیں جہاں جلاتی ہیں
قسم خدا کی وہی قریۂ منّور ہے
تمام خوشبوئیں ان کا طواف کرتی ہیں
ہر ایک لفظ ثنا گو کا عُود و عنبر ہے
برستی رہتی ہے طیبہ کی روشنی اس پر
قلم ریاضؔ کا بھی حیرتوں کا پیکر ہے