چشمِ تر میں بہہ رہی ہے التجا کی آبجو- کائنات محو درود ہے (2017)
چشمِ تر میں بہہ رہی ہے التجا کی آبجو
موجزن، آقاؐ ہے تسلیم و رضا کی آبجو
شدتِ جذبات کی رم جھم میں مَیں بھیگا رہوں
پتھروں سے پھوٹ نکلے ہر دعا کی آبجو
آپؐ ہی تو ہیں سہارا ہم غریبوں کا حضورؐ
آپؐ کے ہیں نقشِ پا جود و سخا کی آبجو
آپؐ کے انفاس کی خوشبو سے مہکی ہے فضا
آپؐ کے قدموں کا دھوون ہے عطا کی آبجو
ابنِ آدم کے ضمیرِ زندہ میں بہتی رہے
آپؐ کے فقر و غنا، صدق و صفا کی آبجو
آپؐ کی ہیں منتظر، بنجر زمینیں، یا نبیؐ
میری بستی میں اتر آئے گھٹا کی آبجو
یا محمد مصطفیؐ! سفرِ سما کا واسطہ
امتِ نادان کو دیں ارتقا کی آبجو
ناخداؤں کو نہیں معلوم یہ شاید، حضورؐ
کس جزیرے میں اتارے گی خلا کی آبجو
پھول توصیفِ نبیؐ کے ہاتھ میں کھلتے رہیں
ہر ورق پر ہو رواں حرفِ ثنا کی آبجو
منحرف چہروں سے اترا کب رعونت کا غبار
آدمی کو چاہئے خوفِ خدا کی آبجو
عجز کی بادِ بہاری اے خدا! چلتی رہے
ڈوب جائے ریگ زاروں میں انا کی آبجو
چُور زخموں سے ہے امت آپؐ کی آقا حضورؐ
کیجئے اس کو عطا آبِ شفا کی آبجو
جاں بلب ہے ہر قبیلہ کتنی صدیوں سے ریاضؔ
ڈھونڈ لائیں تشنہ لب، غارِ حرا کی آبجو