کردارِ مصطفیؐ نہیں گر شاملِ نصاب- کائنات محو درود ہے (2017)

کردارِ مصطفیؐ نہیں گر شاملِ نصاب
مکتب کرے گا خاک کتابوں سے اکتساب

مَیں روشنی کو ڈھونڈنے نکلوں، نہیں نہیں
شہرِ قلم کے سارے دریچے ہیں آفتاب

ہر ضابطہ حیات کا ہے امن کا نقیب
نقشِ قدم حضورؐ کے ہیں جانِ انقلاب

ہر ہر ورق پہ اُنؐ کے محامد کی ہے دھنک
اُنؐ کے ہی نام کون و مکاں کا ہے انتساب

برسیں چراغِ علم کی سرکارؐ رم جھمیں
میری زمیں پہ بہتا رہے عشق کا چناب

تاریخِ کائنات ہے تاریخِ مصطفیؐ
تاریخِ مصطفیؐ تو ہے اللہ کا انتخاب
اکثر میں سوچتا ہوں سرِ شام، یا نبیؐ
جھوٹی انا کا سر سے ٹلے گا کبھی عذاب

برسیں گے کشتِ دیدہ و دل پر ثنا کے پھول
اڑتا رہے گا آپؐ کی توصیف کا سحاب

ہر دور ہے جنابِ رسالت مآبؐ کا
چمکے گا بعدِ حشر بھی طیبہ کا ماہتاب

انسان کے ضمیر میں باقی ہے گر خلش
کھولے کبھی حضورؐ کی یہ آخری کتاب

دولت یقیں کی تجھ کو ملی ہے تو ہمسفر!
تشکیک کی ہواؤں سے لازم ہے اجتناب

مَیں سوچتا رہا ہوں کروں نذر کیا، حضورؐ
اشکوں میں بھیگ بھیگ گئے ہیں مرے گلاب

تہذیبِ مصطفیؐ کا ہے پہلا یہی اصول
ہر قریۂ شعور کرے اُنؐ کا انتخاب

یہ جس قدر ہے روشنی لیل و نہار کی
سرکارؐ کے ہے چہرۂ اقدس کی آب و تاب

ٹوٹا ہوا ہے عدل و مساوات کا قلم
عبرت کا اک نشان ہے ایوانِ احتساب

تعلیمِ مصطفیؐ ہے حقائق کا آئنہ
آدم کی نسل گھر میں سجائے نہیں سراب

یہ بارگاہِ صاحبِ لولاکؐ ہے ریاضؔ
ممکن نہیں کہ باقی رہے خوف و اضطراب

٭

جس کو نصیب ہوں گلِ طیبہ کی خوشبوئیں
وہ کیا کرے بہار کے موسم کا انتظار