دست و پائے جبر کو زنجیر کرتا جاؤں مَیں- خلد سخن (2009)
دست و پائے جبر کو زنجیر کرتا جاؤں مَیں
روز و شب کو نعرۂ تکبیر کرتا جاؤں مَیں
سینہء ارضی پہ میرے عافیت کی چاندنی
علم و حکمت سے کوئی تدبیر کرتا جاؤں مَیں
اُنؐ کے ہر حرف سخن میں امن کا پیغام ہے
ظلمتوں کی صبح کو تنویر کرتا جاؤں مَیں
زندگی کی بھیک مانگی ہے خدا سے اس لیے
نعت کا قصرِ وفا تعمیر کرتا جاؤں مَیں
اپنے ہر قول و عمل سے بھی بفیضِ مصطفیٰؐ
روشنی کے خواب کی تعبیر کرتا جاؤں مَیں
جس میں ہے بس موسمِ عشقِ نبیؐ کی دلکشی
وہ حدیثِ عشق عالمگیر کرتا جاؤں مَیں
ثبت خوابیدہ، ضمیرِ اُمتِ مرحوم پر
پھر صدائے دخترِ کشمیر کرتا جاؤں مَیں
ہاں، بیاضِ نعت کے اوراق میں دل سے رقم
آرزوئے ہر گدا و میر کرتا جاؤں مَیں
چشمِ پُرنم سے کتابِ زندگانی میں، ریاضؔ
اُنؐ کی توصیف و ثنا تحریر کرتا جاؤں مَیں