اشکوں کی کمائی کا پسینہ ہی بہت ہے- خلد سخن (2009)
اشکوں کی کمائی کا پسینہ ہی بہت ہے
یہ نعت نگاری کا خزینہ ہی بہت ہے
قصّہ نہ سنا چاند ستاروں کے سفر کا
آقاؐ کے غلاموں کو مدینہ ہی بہت ہے
سورج کہاں ہاتھوں پہ سجاتا پھرے کوئی
اُس اسمِ منور کا نگینہ ہی بہت ہے
لمحاتِ محبت نہیں ملتے، نہ ملیں، اب
میلادِ پیمبرؐ کا مہینہ ہی بہت ہے
ہر روز سجا لیتے ہیں سرکارؐ کی محفل
بچوں میں سلیقہ یہ قرینہ ہی بہت ہے
کر ساحلِ طیبہ کی طرف چلنے کا وعدہ
طوفانوں میں کاغذ کا سفینہ ہی بہت ہے
جب ہجرِ پیمبرؐ میں گرے اشک تو سوچا
جذبات کی منزل کا یہ زینہ ہی بہت ہے
کوئی بھی عمل فرد عمل میں نہیں لیکن
سرکارؐ کی مدحت کا شبینہ ہی بہت ہے
اب کیسے، ریاضؔ، اور تمنا کروں کوئی
یہ عشقِ محمدؐ کا دفینہ ہی بہت ہے