14 اگست کے حوالے سے ایک نعتیہ نظم- خلد سخن (2009)

اُداس شامِ جدائی کھڑی ہے آنگن میں
محیط روح پہ اِک عالمِ تذبذب ہے
روش روش پہ اُترنے لگی ہے تنہائی
وطن، حضورؐ ہے یہ آپؐ کے غلاموں کا
غبارِ کربِ مسلسل میں سانس لے کب تک
حضورؐ آپؐ کے نقشِ قدم سے نسبت ہے
عطائے ربِ عظیم و قدیم ہے یہ وطن
حصارِ آہنی ہے آپؐ کی یہ اُمت کا
وقار و عزم و یقیں کے گلاب شاخوں پر
کھلیں کہ آپؐ کی اُمت کی سربلندی کا
لکھا ہوا ہے وثیقہ وطن کے پرچم پر
ازل سے جیسے اُفق پر لہو کی بارش ہے
نگار و نقش مٹانے کی سازشیں ہیں بہت
اُجاڑ راہ گزر ہے شعورِ تازہ کی
شمیمِ خلدِ تمنا، برہنہ سر آقاؐ
ردائے بخشش و رحمت کی آرزو لے کر
کہاں، حضورؐ سرِ مقتلِ شبِ آخر
شمیمِ خلدِ تمنا چھپائے سر اپنا

ہوا کا جبرِ مسلسل ہے روز و شب پہ محیط
لبوں پہ قفل لگانے کی رسم زندہ ہے
ضمیر مردہ ہے کشتی کے ناخداؤں کا
کھلا ہے شہرِ سیاست میں شر کا دروازہ
امیرِ شہر کے عشرت کدوں کی زینت ہے
حضورؐ دخترِ حوّا، غریب کی بیٹی
یہ دفن ہوتی ہے تیرہ شبی کی مٹی میں
نجات اس کی ہتھیلی پہ بھی لکھی جائے
چراغ گھر کی منڈیروں پہ جل رہے ہیں مگر
ہوس پرستی کی تاریکیاں ہیں چہروں پر
منافقت کے جزیرے میں قید ہے خلقت
فضا میں سبز پرندے نظر نہیں آتے
حضورؐ، سایہء کرب و بلا میں رہتی ہیں
بہت اُداس ہیں نسلیں غلام زادوں کی
گلاب شوق کے رکھتی نہیں یہ دامن میں
رقم ہیں اُن کی جبینوں پہ حرف مبہم سے
کتابِ دیدہ و دل کا ورق ورق آنسو
ہر ایک خواب ادھورا ہے میرے بچوں کا
یہ اپنا ملّی تشخص کوئی نہیں رکھتے
یہ اپنے آپ کو پہچان بھی نہیں پاتے
مرے رسولؐ، مرے چارہ گر، مرے آقاؐ
وقارِ آدمِ خاکی کو میں کہاں ڈھونڈوں
کہ سیلِ زر کی ہے زد میں لہو کا ہر رشتہ
صدا یہ گونج رہی ہے اُفق اُفق کب سے
سزائے جرمِ ضعیفی کا حکم پا کر بھی
کسی کو قتلِ انا کی کوئی خبر ہی نہیں
حضورؐ لاکھ بپا حشر ہوں گلستاں میں
کسی کی نیند میں پڑتا نہیں خلل کوئی

ضمیرِ مردہ پہ کوئی اثر نہیں ہوتا
ہزار موجوں میں قطرہ گہر نہیں ہوتا