پرسانِ حال میرا کوئی نہیں جہاں میں- لامحدود (2017)
اک حرفِ التجا کے مانند یا الہٰی
کب سے غلافِ کعبہ تھامے مَیں رو رہا ہوں
کشتِ دعا میں اپنی آنکھوں کو بو رہا ہوں
غم سے نڈھال ہوکے زخموں پہ سو رہا ہوں
اک حرفِ التجا کے مانند یا الہٰی
اک حرفِ التجا کے مانند یا الہٰی
پلکوں سے تیرے در پر دستک مَیں دے رہا ہوں
جل جل کے رات ساری یارب، مَیں بجھ گیا ہوں
ہر زائرِ حرم کے قدمین میں پڑا ہوں
اک حرفِ التجا کے مانند یا الہٰی
اک حرفِ التجا کے مانند یا الہٰی
محرومیوں کے جنگل اگنے لگے ہیں گھر میں
آبِ خنک کی بوندیں کب ہیں کسی شجر میں
سب لٹ گئے اثاثے صدیوں کے اس سفر میں
اک حرفِ التجا کے مانند یا الہٰی
اک حرفِ التجا کے مانند یا الہٰی
پرسانِ حال میرا کوئی نہیں جہاں میں
قطرے لہو کے گم ہیں اشکوں کی داستاں میں
چہرے بھی چھُپ گئے ہیں اب گردِ کارواں میں
اک حرفِ التجا کے مانند یا الہٰی