میرے اسلوبِ ندامت کو ملے اذنِ سفر- لامحدود (2017)
میرے ہر اک خواب کو طیبہ کی تعبیریں ملیں
عشق میں ڈوبی ہوئی پڑھنے کو تحریریں ملیں
ہر طرف اُنؐکے محامد کے جلیں لاکھوں چراغ
ہر طرف اُنؐ کے نقوشِ پا کی تصویریں ملیں
گنبدِ خضرا کے سائے میں رہے میرا قلم
چاند راتوں کی مسلسل مجھ کو تنویریں ملیں
حشر کے دن نامہ اعمال میں اچھے خدا!
ہم گنہ گاروں کی تقصیریں ہی تقصیریں ملیں
مَیں جہادِ زندگانی میں ہوں مصروفِ عمل
علم و فن کی میرے بچّوں کو بھی شمشیریں ملیں
عدل کب میزان پر اترے گا پورا، یا خدا!
جرمِ ناکردہ پہ ناداروں کو تعزیریں ملیں
تیرے محبوبِ مکرمؐ کی ہے امت در بدر
لوٹ آئے عظمتِ رفتہ وہ تقدیریں ملیں
آج اربابِ دعا کھولیں شجاعت کے علَم
گونجتی اکنافِ عالم میں بھی تکبیریں ملیں
امتِ مظلوم کی سوچوں میں ہے کیسا فتور
جو ہوں پابندِ شریعت ایسی تدبیریں ملیں
نفرتوں کی آگ میں جلتے ہوئے انسان کو
سایۂ خیرالبشرؐ کی سبز جاگیریں ملیں
میرے اسلوبِ ندامت کو ملے اذنِ سفر
میرے ہر مصرع کو چشمِ نم کی تاثیریں ملیں
میری نسلیں بھی قیامت تک جنہیں چومیں، ریاضؔ
کاش! مجھ کو بھی غلامی کی وہ زنجیریں ملیں