محشر تلک رہے گی خلائوں میں روشنی- لامحدود (2017)
سکھلائے مجھ کو تُو نے ہی آدابِ بندگی
یارب! ترے کرم کا ٹھکانہ نہیں کوئی
ہر لفظ آبجو ہے مری ہر کتاب کا
کب سے لکھی ہوئی ہے مرے لب پہ تشنگی
میری انا بھی عجز کے پیراہنوں میں ہے
دامن میں میرے صرف ہے پندارِ عاجزی
تیری ربوبیت کے جلیں گے سدا چراغ
اتریں گے ہر جزیرے میں انوارِ سرمدی
بارش کے زرد ہاتھ پر امشب سکون سے
لوگوں نے اپنی کشتیاں رکھ دی ہیں کاغذی
اُنؐ کے نقوشِ پا کی نشانی کے طور پر
محشر تلک رہے گی خلائوں میں روشنی
دامن میں پھول عزم و عمل کے گریں ہزار
بچوّں کے ہاتھ کی ہو لکیروں میں سرخوشی
تسخیرِ کائنات ہے شامل نصاب میں
لیکن مرے خیال کی فطرت ہے کرگسی
خورشید عافیت کا ابھی بادلوں میں ہے
یا رب! کبھی ہو دفن اندھیروں کی سرکشی
کھیتوں میں خشک پتوں کا موسم محیط ہے
پانی کی زد میں ہے مری تنکوں کی جھونپڑی
فضل و کرم کی بارشیں دن رات ہوں، مگر
سیلاب موجزن نہ ہو یارب! گلی گلی
یارب! اتار عدل کی میزان ہر طرف
قاتل ہی مقتلوں میں کریں آپ منصفی
آبِ ثنا میں ڈوب کے کالی گھٹا اٹھے
شہرِ گماں میں اڑتی ہے ہر سمت دھول سی
سجدے میں کب سے بندۂ ناچیز ہے ریاضؔ
یارب! قبول کر تُو مری خود سپردگی
سردارِ کائناتؐ کے قدموں میں بیٹھ کر
سب کچھ ریاضؔ مانگ لے اللہ سے آج بھی