پڑے ہر قدم پر مودت کا سایہ- لامحدود (2017)
برہنہ سروں پر ہو شفقت کا سایہ
خیابانِ انوار و نکہت کا سایہ
کڑی دھوپ میں مانگتا ہے سخنور
ہوائے خنک، فضل و رحمت کا سایہ
کرم کی گھٹائیں اٹھیں ہر افق سے
رہے تیرے دستِ مشیّت کا سایہ
عطائوں کی بارش ہو کوہ و دمن پر
ملے ہر بشر کو محبت کا سایہ
مفادات کی آندھیاں چل رہی ہیں
یہاں کھو گیا ہے دیانت کا سایہ
اخوت کی بادِ صبا چاہتا ہوں
پڑے ہر سخن پر مودت کا سایہ
قیامت کے دن سرورِ دو جہاںؐ کی
ملے ہر کسی کو شفاعت کا سایہ
رہے بعدِ محشر بھی امت کے سر پر
رسولِ معظمؐ کی رحمت کا سایہ
چراغِ دعا کر رہا ہوں مَیں روشن
قلم پر رہے تیری قدرت کا سایہ
مرا عکس معدوم ہونے لگا ہے
ہے اب آئنوں میں بھی حیرت کا سایہ
خنک موسموں کو مَیں آواز دوں تو
پلٹ آئے ابرِ شریعت کا سایہ
عطا ہو اسے رہنمائی کی دولت
ملے رہنما کو قیادت کا سایہ
میں بخشش کا طالب رہوں تجھ سے مولا!
گرے آنسوئوں سے ندامت کا سایہ
ہوا عافیت کی چلے ہر گلی میں
گھروندوں پہ ہے کس اذیّت کا سایہ
نئے دن کے انوار کا کوئی چھینٹا
نئے حرف پر ہے قدامت کا سایہ
ہمیشہ رہے اے خداوندِ عالم
زمینوں پہ بارانِ رحمت کا سایہ
یقینا ریاضؔ آدمیت کے سر پر
رہے گا سلامت رسالت کا سایہ