آج بھی ممکن بنا حرفِ دعا کی واپسی- لامحدود (2017)
یا خدا، تیرے سوا، کس کو پکارے آدمی
میر و سلطاں کو کیا ہے تیری قدرت نے غنی
تُو کہ لا محدود ہے، تیرے جہاں بھی بے حساب
میری سوچوں سے بھی آگے پادشاہی ہے تری
ایک اک پتہ چمن زاروں میں ہے محوِ ثنا
حمد کرتی ہے تری، شاخِ بریدہ پر کلی
تیرے ہی لوح و قلم ہیں، تیرے ہی حرفِ اذاں
تیری ہی تخلیقِ اوّل ہیں رسولِؐ آخری
وقت کی رفتار تیرے حکم کی پابند ہے
ا برِ رحمت، پھول رُت، بادِ خنک اور روشنی
موسموں کا یہ تغیّر بھی ہے پابندِ سفر
اے خدا! ہر حکم تیرا ہے ازل سے دائمی
حیطۂ ادراک سے ہے ماورا تیرا خیال
تیری ہستی، یا خدا! ہے روشنی ہی روشنی
جاں بلب بنجر زمینوں پر ہوں مولا! بارشیں
میرے دشتِ کربلا میں اڑ رہی ہے خاک سی
آندھیوں میں جل رہا ہے ایک مٹی کا دیا
اس کے شعلے کو تحفظ کی ردا تو نے ہی دی
یا خدا! مشکل میں ہوں مشکل مری آسان کر
راستے میں ہر قدم پر ایک ہے دیوار سی
تُو نے ہی ہر ہر دریچے میں جلائے ہیں چراغ
تُو نے ہی تخلیق کی ہے ہر زماں میں روشنی
ذہنِ انسانی ابھی تشکیک کے موسم میں ہے
اس کے ہاتھوں پر ہوا رکھّے چراغِ آگہی
اپنے محبوبِؐ مکرّم کی ثنا گوئی قبول
دست بستہ ہیں مصّلے پر سخندانِ نبیؐ
اَطلس و کمخواب کے پیراہنوں میں یا خدا!
آج بھی ممکن بنا حرفِ دعا کی واپسی
تُو نے ہی ہر حال میں مجھ کو سہارا ہے دیا
جو سرِ مقتل نظر آئی وہ تیری ذات تھی
تُو ہی مشکیزوں کو دیتا ہے گھٹائوں کا مزاج
دور کرتا ہے کٹوروں کی تُو ہی تشنہ لبی
بند کمروں سے نکلتے ہی نہیں بچّے ریاضؔ
کیا مقدر میں ہیں بس کالی بلائیں خوف کی