ریاضؔ، آج بھی تیرا نصیب جاگے گا- خلد سخن (2009)
ریاضؔ آج بھی تیرا نصیب جاگے گا
قلم سے موسمِ شاداب آ کے لپٹے گا
ملے گی جس کو غلامی حضورؐ کے در کی
لہو کے سارے روابط کو توڑ ڈالے گا
زمیں پہ قرض ہے احسانِ مصطفیٰؐ کا بہت
کبھی تو آج کا انسان یہ بھی سوچے گا
فریب و بغض و مفاسد کے گھپ اندھیروں میں
مرے قلم کا ستارہ ضرور چمکے گا
ازل سے ابرِ محبت کا سائباں ہے محیط
ابد تلک بھی یہی ابر کھل کے برسے گا
یہ جس کی راہ میں پل پل بچھائے تھے کانٹے
صدی صدی میں کرم کے گلاب بانٹے گا
یہ آفتابِ رسالت ہے اوّل و آخر
اب اس کے بعد نہ سورج کسی کا نکلے گا
مفاد و حرص و قدامت کے مردہ خانے میں
ضمیرِ آدمِ خاکی بھی جاگ اُٹھے گا
ہتھیلیوں پہ سجے ہوں گے پھول مدحت کے
ہجومِ حشر کو مجھ پر بھی رشک آئے گا
ہوائے جبر چلے لاکھ بستیوں میں، ریاضؔ
خیالِ خلدِ مدینہ کو کون روکے گا