وہی ہے خالق و مالک ازل ابد اُس کے- دبستان نو (2016)
خیالِ خلدِ پیمبرؐ میں گُم قلم کا وجود
سمٹ رہا ہَے زباں پر ہجومِ لالہ و گلُ
صبا کے جسم پہ ہَے خوشبؤوں کا پیراہن
ورائے حمد و ثنا ذاتِ خالقِ مطلق
خطا و نقص سے ہَے پاک جس کا وصفِ جمیل
حصارِ ضبطِ نفس میں خلوص کی گرمی
قدم قدم پہ ہواؤں کی سجدہ ریزی ہے
عجیب موسمِ تہذیبِ آرزو ہَے محیط
نیاز و عجز کی شبنم گری ہَے ہونٹوں پر
ورَق ورَق پہ اجالا ہَے اسمِ اعظم کا
کروڑ لاکھ سمندر سے ایک قطرے کی
کوئی حقیر سی نسبت بھی مان لی جائے
برائے نام سی نسبت وہ کس شمار میں ہے
برائے نام سی نسبت مجھے نہیں حاصِل
شعور ہاتھ اٹھائے ہوئے کھڑا ہَے یہاں
مقامِ بندۂ عاجز کا کیا تعیّن ہو
رضائے حرفِ الٰہی سے ہَے قیام جسے
وہ اپنے ہونے کا اِدراک بھی نہیں رکھتا
دیارِ عقل و خرد کی حدود سب مسدود
لُغت کا نورِ معانی بھی حرفِ مبہم ہَے
وہی بزرگ بھی، برتر بھی اور اعلیٰ بھی
شریک اُس کا کسی طور بھی نہیں ممکن
وہی ہَے خالق و مالک، ازَل ابَد اُس کے
اُسی کے اِذن سے بنجر زمین کی جانب
سحابِ بخشش و رحمت برسنے آتا ہے
فشارِ کشتِ زمیں سے گلاب اُگتے ہیں
برہنہ شاخ پہ ِکھلتی ہیں اَن گِنَت کلیاں
ظہورِ خوشۂ گندم عمل میں آتا ہَے
وہ اپنے بندوں کا مشکل کُشا بھی تنہا ہَے
ہر ایک چیز کا مالک وہ ایک اللہ ہے
وہ ایک اللہ ہی روزی رساں ہمارا ہَے
اُفق اُفق پہ ہجومِ نجوم اُس کا ہے
اُسی کے حکم کا پابند آب و گِل کا جہاں
اُسی کے فیضِ مسلسل کا یہ نتیجہ ہَے
بدن پہ حرفِ تسلّی کی داستاں ہَے رقم
ہر ایک سانس کے آنچل پہ کہکشاں ہے رقم