مجھے تُو ہادیٔ برحق کے مکتب کی بنا تختی- دبستان نو (2016)
ترے محبوبؐ کے مَیں ذکرِ اطہر کا تمنائی
کہاں جاؤں، کدھر جاؤں، کسے ڈھونڈوں سرِ مقتل
ہوَس کی آگ سے تاریک سینہ ہے مرا یارب!
مجھے ذکرِ ثنائے مرسلِ آخرؐ کے گلشن دے
مجھے تشنہ لبوں کو مطمئن کرنا نہیں آتا
بدن پر کاغذی پیراہنوں کا کب تلک ماتم
مجھے اپنے بدن کے خوں پسینے کی ملے قیمت
ملے تیرے خزانے سے مجھے حرفِ پذیرائی
مجھے اپنی غریبی کا بھرم رکھنا بھی آ جائے
کشادہ رزق ہو میرا، مری جلتی زمینوں پر
مری ریگِ رواں میں آنسوؤں کی آبجو رکھنا
مجھے اوقاف کے نیلام گھر میں کس نے رکھّا ہے
مجھے تفہیم کا رستہ شبِ زر میں دکھا، یارب!
ثنائے مرسلِ آخرؐ کا منصب تُو نے بخشا ہے
یہ مکتب کے کھُلے اذہان پر کس کا ہوا قبضہ
گرفتِ ناروا میں ہے حروفِ نور کی رم جھم
مَیں حرفِ نو کے باطن میں ازل سے جھانکنے والا
مجھے تُو ہادیِ برحق کے مکتب کی بنا تختی
کہ جس پر امن کی تحریر جھک کر آسماں لکھّے
مجھے پھر عافیت کی چار دیواری کے اندر رکھ
مجھے خوفِ مسلسل سے نجاتِ دائمی دینا
درندے نام تیرا لے کے بستی میں چلے آئے
ربوبیت کے لاکھوں پھول کِھلتے ہیں رگِ جاں میں
مرا چہرہ جو کب سے کھو چکا ہَے اپنی رعنائی
مرا چہرہ جو خارش کے نئے زخموں کا مسکن ہے
مرے چہرے پہ بھی خاکِ درِ سرکارؐ کی مشعل
کبھی روشن ہو تیرے فَضْل و رحمت سے مرے مولا!
تری حمد و ثنا ہوتی ہَے جب بھی آنکھ کھُلتی ہے
ترے ہی نام سے آغاز کرتا ہوں نئے دن کا
تُو ہی مشکل کشا میرا، تُو ہی حاجت روا میرا
ترے ہی نام سے مَیں نے عمل کی ابتدا کی ہے
ترے محبوبؐ کی عالم کے اشکوں نے ثنا کی ہے