تیرے اذنِ خاص سے زرخیز ہَے میرا قلم- دبستان نو (2016)
حاکمِ اعلیٰ ہَے تُو، کونین کے پروردگار!
تیرا ثانی ہی نہیں، کوئی نہیں تیرا شریک
رزق دیتا ہَے تُو اپنی ہر کسی مخلوق کو
تُو خدائے مہرباں ہَے تو خدائے آسماں
حمد تیری کے لئے ہَے با وضو خلدِ سخن
تیرے اذنِ خاص سے زرخیز ہَے میرا قلم
لب کشائی کی جسارت مَیں بھلا کیسے کروں
ہر قدم زر کی ہوس ہَے خیمہ زن میرے خدا!
(قرض خواہوں کے تقاضے حد سے اب بڑھنے لگے
لرزہ براندام ہَے گرتا ہوا میرا بدن)
تیری حکمت سے مری سب مشکلیں آسان ہوں
تیرے الطاف و کرم کی ہوں مسلسل بارشیں
دستگیری میری فرما، قریۂ اوہام میں
کب نہیں مجھ کو ملے حاجت روائی کے صدف
اَن گِنت آسودہ لمحوں کو مری سانسوں میں رکھ
میرے سجدوں کی کمائی کے بھی ہوں آنسو قبول
حرفِ تابندہ کے ہاتھوں میں رہے سورج کا ہاتھ
میرے کشکولِ دعا میں گر رہی ہو روشنی
خوف کی آندھی چلی ہَے دامنِ کہسار میں
عالمِ برزخ میں ہے آدم کی نسلوں کا وجود
آمریت کے شکنجے میں ہَے جمہوری نظام
آج بھی جھوٹے خداؤں کی عملداری میں ہوں
آتشِ نمرود میں جلنے لگے کوہ و دمن
ہر کسی فرعون کو تیری جلالت کے چراغ
مَیں مصّلے پر کھڑا ہوں بندگی کا دے شعور
روشنی تخلیق کرنے کا مجھے تُو دے ہنر
میری مجبوری کو تُو اپنے کرم کے پھول دے
دے غبارِ شہرِ پیغمبرؐ کا مجھ کو آئنہ
حُبِّ سرکارؐ مدینہ سے مرے دامن کو بھر
آپؐ کے قدموں کے صدقے میں صداقت کے چراغ
دامنِ لوح و قلم میں نور کی برسات ہو
لب پہ بھی آنے سے پہلے سب دعائیں ہوں قبول
رزق کی بہتات ہو، ہر کھیت میں میرے خدا!
وادیٔ ارضِ وطن میں ہو بہاروں کا نزول
ہر قبیلے کے جوانوں کو ملے حرفِ دعا
چاند تارے کا عَلَم ہو امنِ عالم کا نقیب
قوّتِ خیبر شکن اس کی فصیلوں پر ملے
آندھیوں میں ہر چراغِ آرزو جلتا رہے