میرے سجدے ہیں مصلّے پر ندامت کے بغیر- دبستان نو (2016)
یاخدا! مجہول انسانوں کو دے عَرضِ ہنر
مجھ سے ناکارہ کی بھی فریاد سن، فریاد سن
عاجز و مسکین سا بندہ ہوں مَیں تیرا بہت
میری ہر اک سانس تیرے قبضۂ قدرت میں ہَے
یاخدا! اکھڑی ہوئی سانسوں کا بھی چارہ کوئی
میری سب محرومیوں کی بھی تلافی ہو کبھی
قَرض ہَے مجھ پر ترا اور تیرے بندوں کا بہت
یاخدا! آسودہ رکھ گھر کے مکینوں کو ہمیش
ہو شعورِ بندگی مجھ کو عطا میرے خدا
میرے سجدے ہیں مصّلے پر ندامت کے بغیر
بیخودی کے سارے پیمانے بھی ہیں ٹوٹے ہوئے
دے مجھے، سرکارؐ کے قدمَین کی خیرات دے
گنبدِ خضرا کی ٹھنڈی ٹھار چھاؤں دے مجھے
آپؐ کے قدمَین کا دھووَن ملے انسان کو
آدمی سے تُو خدائی چھین لے میرے خدا
کب تلک تختِ تکبّر پر رہے گا آدمی
کب تلک امن و اماں رزقِ انا بنتا رہے
یاخدا! آلِ پیمبرؐ کا مجھے صدقہ ملے،
ہر شہیدِ کربلا کے خون کا ہَے واسطہ
یاخدا! زندہ یزیدوں سے رہائی بھی ملے
ان کے استبداد سے خلقِ خدا پائے نجات
یاخدا! شامِ غریباں کا دھواں چاروں طرف
امتِ ناداں کے قتلِ عام کا شاہد ہَے یہ
یاخدا! پھر بازوئے خیبر شکن کا زور دے
آسماں سے پھر اتر آئے فرشتوں کی قطار
عظمتِ رفتہ ابھی تاریخ کی قبروں میں ہَے
ہر گھروندے کو بنا دے مورچہ میرے خدا!
اُمّتِ خیرالبشرؐ کو دے جوانمردی کے رنگ
گو نہّتی ہَے، کرے باطل کے ایوانوں سے جنگ
آدمی جنگل کے ہر قانون کا پابند ہَے
دے شرف میری دعاؤں کو قبولیت کا تُو
تیرے محبوبِ مکرمؐ کی مجھے اُترن ملے
آمنہؓ کے لالؐ کا صدقہ مجھے کر دے عطا
مالکِ کون و مکاں تُو خالقِ ارض و سما
مَیں فقیرِ رہگذر ہوں میرے بھی کشکول میں
اُنؐ کی رحمت کے گریں سِکّے قیامِ حَشر تک
بعدِ مَحشر بھی رہے قائم انہیؐ کا سائباں
ہو عطا خلدِ بریں میں بھی کرم سرکارؐ کا
آسمانوں کے سروں پر بھی رہے ابرِ کرم
نامۂ اعمال میں حمد و ثنا بھی درج ہو
قَصرِ شاہی کے محافظ لشکری جلّاد ہیں
قتل گاہوں میں تلاشیں فاختائیں امن کی
جی رہے ہیں ہم منافق ساعتوں کے درمیاں
یاخدا! جھوٹے خداؤں کو بنا رزقِ زمیں
غَرق ہوں ان کے سفینے پانیوں میں آج ہی
یاخدا! بے غیرتی کا دور یہ اب ختم ہو
کب تلک در در پھریں گے تیرے بندوں کے ہجوم
وادیٔ شعر و سخن میں یاسیّت ہَے خیمہ زن
خوف کے لشکر در و دیوار میں روپوش ہیں
ہر گھڑی کھٹکا لگا رہتا ہَے میری جان کو
ہر گھڑی مرگِ مسلسل کے قدم اٹھتے رہے
اب چراغوں کے بدن میں تیل بھی باقی نہیں
اس طرح جیسے بشر انصاف سے محروم ہے
آنکھ کا پانی ہمیشہ کے لئے ہَے مر گیا
جیسے دنیا میں درندے حکمراں ہیں ہر طرف
جیسے انساں کا لہو پانی کا ہَے نعم البدل
جیسے حّوا کی جواں بیٹی کھلونوں کی دکاں
جیسے انسانی وقار و تمکنت مردہ ضمیر
ربطِ انسانی ہوس کاری کی ہَے کالی مثال
ہر طرف ابلیس زادوں کی گرفتِ ناروا
ہر طرف انسانیت کی دھجیاں اڑتی ہوئی
ہر طرف کرب و بلا میں مبتلا ہَے آدمی
ضابطہ انسان پر جیسے کوئی لاگو نہیں
مستقل شامِ غریباں کا دھواں پھیلا ہوا
دامنِ ارض و سما اشکوں میں ہے بھیگا ہوا