یا خدا! ابلیسیت بنجر زمیں میں دفن ہو- دبستان نو (2016)
ایک اک آنسو میں روشن ہیں ندامت کے چراغ
ایک اک ساعت کے چہرے پر پشیمانی کے رنگ
ایک اک دھڑکن فسردہ شام کے منظر میں ہَے
ایک اک چہرہ مری بستی کا حرفِ التجا
ایک اک لہجے میں ہَے مردہ صداؤں کا کفن
ایک اک دامن میں ہَے جلتے ہوئے موسم کی راکھ
ایک اک گلشن میں ہَے ہر پھول مرجھایا ہوا
ایک اک دریا میں ہَے تشنہ لبی ہی موجزن
ایک اک وادی میں چلتی ہَے بگولُوں کی قطار
ایک اک دستار میں پامال رستوں کے سراب
ایک اک کاغذ کی کشتی موجِ سرکش کا ہدف
ایک اک منظر میں ہَے شامِ غریباں کا دھواں
ایک اک انسان اپنے آپ سے بیزار ہے
ایک اک میرا قلم زنجیر میں لپٹا ہوا
ایک اک اخبار کی سرخی لہو سے ہے رقم
ایک اک دیوار پر ہیں موت کی پرچھائیاں
ایک اک بستی حصارِ خوف میں سمٹی ہوئی
ایک اک بیٹی برہنہ سر کھڑی ہَے دھوپ میں
ایک اک نوحہ ہتھیلی پر بھی ہے لکھّا ہوا
ایک اک فرعون ہَے مسند نشیں دربار میں
ایک اک نمرود کی روشن چتا ہے آج بھی
ایک اک ابلیس انسانی بدن میں ہَے مقیم
ایک اک جھوٹا خدا سازش میں ہَے کب سے شریک
ایک اک مزدور کے ہیں روز و شب زیرِ عتاب
ایک اک مدقوق لمحہ ہَے گلستاں پر محیط
ایک اک مکروہ چہرہ ہَے علامت جَبر کی
ایک اک چڑیا اداسی کا کفن اوڑھے ہوئے
ایک اک پربت پہ ہَے ٹھٹھری ہوئی بادِ شمال
ایک اک حرفِ دعا میں التجاؤں کا ہجوم
عاجز و مسکین بندوں کی دعائیں ہوں قبول
ہر طرف تیری ربوبیت کا ہَے جاہ و حشم
ہر طرف تیری الوہیت کے ہیں پرچم کھُلے
ہر طرف تیری حکومت ہی کا ہَے سکّہ رواں
ہر طرف تیری جلالت کے کروڑوں آفتاب
ہر طرف تیری محبت دیدہ و دل میں مقیم
بعض بندے تیری رحمت پر نہیں رکھتے یقیں
منحرف چہرے ازل سے آئنہ خانے میں ہیں
عکس ہیں ٹوٹے ہوئے خستہ فریموں میں ابھی
بعض بندوں کے ہے ذہنوں میں خدا بننے کی دُھن
سر کشی ان کی حدودِ ضبط سے باہر ہوئی
ضابطہ اخلاق کا ہر گز نہیں ان کو قبول
یاخدا! یہ منحرف چہرے تکبّر کے نشاں
مَیں ترے محبوبؐ کا ناچیز سا ہوں امتی
مجھ پہ رحمت کر محمدؐ مصطفیٰ کے واسطے
یاخدا! میرے گناہوں سے مسلسل در گذر
تَشنہ لب دریاؤں میں سوکھی ہوئی میری زباں
خشک سالی کی گرفتِ ناروا میں ہے قلم
خوف کی چادر بچھی ہَے کوچہ و بازار میں
تنگ گلیوں میں اندھیری رات ہَے گہری بہت
آگ کے شعلے برستے ہیں ہوا سے، یاخدا!
زندگی اور موت کی ہَے کشمکش میں آدمی
جھاڑیوں میں ایک بھی جگنو نہیں باقی بچا
تتلیوں کے قافلے صحرا میں ہیں بھٹکے ہوئے
یاخدا! تُو مالک و مختار ہے ہر سانس کا
اپنے بندوں کا نگہباں تُو خدائے مہرباں!
یاخدا! مجھ کو شعورِ بندگی کی روشنی
یاخدا! شاداب موسم ہی فضاؤں میں رہیں
یاخدا! ارضِ وطن کے ہر نگر کی خیر ہو
کوچہ و بازار میں ہو تیری رحمت کا نزول
آنگنوں میں عافیت کی چاندنی اترا کرے
خوشبوؤں کا رقص ہی جاری رہے شام و سحر
یاخدا! ابلیسیت بنجر زمیں میں دفن ہو
یاخدا! اجڑی ہوئی بستی کو پھر آباد کر
یاخدا! مجھ پر کرم کی آج بھی برسات ہو
یاخدا! کِشتِ دعا میں روشنی اُگنے لگے
روشنی اہلِ وطن کے خواب کی تعبیر ہو
دائمی امن و اماں کا ضابطہ تحریر ہو